
دو ہزار انیس کا آخری کالم
منگل 31 دسمبر 2019

احتشام الحق شامی
ٹوٹی پھوٹی اور بے ربط سی تحریریں گزشتہ بیس برسوں سے لکھ رہا ہوں ، روزنامہ مرکز اسلام آباد میں ایک عرصہ تک مستقل کالم لکھتا رہا اور مختلف قومی روزنامے بھی خاکسار کی تحریروں کو عزت بخشتے رہے ۔ اسی دوران اپنے ہفت روزہ ’’بیدار‘‘ کی اشاعت بھی جاری رہی جو مالی وسائل نہ ہونے کے باعث زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہ سکی ۔
(جاری ہے)
سیاسی اور نظریاتی طور پر وابستگی ابتداء سے مسلم لیگ ن سے ہی رہی ہے لیکن اس کے باوجود کبھی بھی ن لیگ یا اس کی قیادت کے حوالے سے یا اس کی حق یا حمایت میں کوئی تحریر سپردِ قلم نہیں کی ۔
دو ہزار چودہ میں عمران خان کی جانب سے آذادی مارچ کا اعلان کیا گیا جسے سونامی مارچ بھی کہا گیا، جو اس ملک کی تباہی اور بربادی کا باعث بنا اور جس کے بعد اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنوں ، ملک بھر میں لاک ڈاون اور پی ٹی آئی اور طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کا الیکشن دھاندلی کے نام پر نواز حکومت کے خلاف مشترکہ احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا، جوو قت کے ساتھ ساتھ زور پکڑتی گئی اور پھر چشمِ فلک نے ڈی چوک میں وہ کچھ دیکھا جو شائد اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ ملکی اداروں کی چولیں کس طرح ہلائیں گئی ۔
محکمہِ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کو کس طرح ڈی چوک میں زود و کوب کر کے لہو لہان کیا گیا،پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے عمارت کی بے حرمتی اور کس طرح پی ٹی آئی اور پیٹ کے لفنگوں اور دہشت گردوں نے پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کیا،یہی نہیں بلکہ ملک کے ہر بڑے شہر میں جلاو،گہراو،توڑ پھوڑ کی گئی اور لاک ڈاون کر کے شہریوں کا جینا دو بھر کر دیا گیا ۔ اسپانسرڈ کنٹینر پر سے بجلی اور گیس کے یوٹیلیٹی بِل پھاڑ کر عوام کو سول نافرمانی پر اکسایا گیا، ملک کے سیاستدانوں کی کردار کشی کی گئی، کئی سیاستدانوں اور میڈیا ہاوسز اور صحافیوں براہِ راست پر حملے کروائے گئے۔
اسی دوران ایک بدترین اور کبھی نہ بھولنے والا وہ بدقسمت لمحہ بھی دیکھنے میں آیا جب ہمسایہ ملک اور دیرینہ دوست ملکِ چین کے سربراہ کو پاکستان کے سرکاری دورہ پر آنے سے روکنے کی کوشش کی گئی جسے سہولت کاروں کی مدد سے کامیاب بھی کر دیا گیا اور اِس قابلِ مذمت عمل پر فتح کے شادیانے بجائے گئے ۔
اس غریب ملک کی تقدیر بدلنے والے گیم چینجر منصوبے سی پیک کو روکنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کر دیا گیا کہ معیشت کا چلتا پہیہ روکنے کے لیئے ایسا عمل یا ملک دشمنی، مودی نہیں بلکہ کنٹینر سے بہ نفسِ نفیس خان صاحب اور ان کے سہولت کار پارلیمنٹ پر لعنتیں بھیجتے ہوئے سر انجام دیتے رہے ۔ یہ ساری لرزہ خیز واردات اس ملک کے ایک عام شہری کی آنکھیں کھولنے کے لیئے کافی تھی اور یہی وہ وقت تھا جس نے مجھے، مجھ پر اس وطن کے بے حساب احسانات اور قرض چکانے کا موقع فراہم کیا ۔
اپنے آپ کو اس ملک کا سب سے بڑے’’ خیر خواہ‘‘ کہنے والے عمران خان صاحب کی سیاسی سرگرمیاں اور ان کے جلسوں نے اس بات پر مجبور کر دیا کہ ان صاحب کی ’’محب الوطنی‘‘ کی تہہ تک جایا جائے ۔ ٹھنڈے دل و دماغ اور جذبات کے ساتھ اور اپنی بساط کے مطابق جب تحقیق شروع کی تو میرے جہاں ہوش اڑے وہاں کئی انکشافات اور حقائق نے اس قدر جھنجھوڑا کہ اپنے قلم کے ہھتیار کو جسے کافی عرصہ قبل اپنی کاروباری اور ذاتی مصروفیات کے باعث الگ سے رکھ چھوڑا تھا،اسے دوبارہ اٹھانے پر مجبور ہو گیا،لیکن بعض ایسے ایسے ہولناک انکشافات سے بھی پالا پڑا جنہیں ابھی تک سپردِ قلم نہیں کر سکا بحرحال سوشل میڈیا کے خار دار محاذ پر تمام تر خطرات کے باوجود ضمیر کے مطابق حق اور سچ لکھنا اور اپنی دانست اور حیثیت کے مطابق کردار ادا کرنا شروع کر دیا ۔
اس دوران خاندان کے افراد اور کچھ خیر خواہوں نے مختلف خطرات اور مشکلات سے آگاہ بھی کیا اور سوشل میڈیا پر سچ ار حق لکھنے کے عمل سے باز ر رکھنے کی کوشش کی لیکن میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ملک کا’’ واحد خیر خواہ‘‘ کہلانے والے عمران خان اور اس کے’’ سہولت کاروں ‘‘ کا اصل چہرہ عوام کو دکھانے والوں کے اس قبیلے میں شامل ہو گیا جو اس ملک میں عوام کی اصل حاکمیت، قانون ،جمہوریت اور آئین پر یقین رکھتے ہیں اور اس ضمن میں آج بھی قومی جدوجہد کر رہے ہیں ۔
آج الحمد اللہ سرخرو ہوں کہ میرے دس برس ضائع نہیں گئے، عالمی سامراجی ایجنڈے کے تحت ملکِ عزیز کی جڑیں کمزور کرنے سازشیوں کو بے نقاب کرنے کی کوششیں بھی ضائع نہیں گئیں اور اس طرح اپنے اوپر وطنِ عزیز کے قرض کو کسی حد سے چکانے کی جو کوشش کی، اسے اپنی کامیاب کوشش سمجھتا ہوں ،کیونکہ ضمیر مطمعن ہے اور اسی بہانے سوشل میڈیا سے وہ کچھ بھی سیکھا اور سمجھا جو درسی کتابوں میں نہیں پڑھا تھا ۔
آخر میں ان تمام محترم دوستوں کا بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ ناچیز کو فالو کیا اور میری تحریروں کو عزّت بخشتے ہوئے ہمّت افزائی کی ۔ تمام دوستوں اور احباب کے نام لینا یہاں ممکن نہیں لیکن سب سے اتنا ضرور کہوں گا کہ اتنی میری اوقات نہیں جتنی آپ سب دوستوں اور احباب نے مجھے میری اوقات سے زیادہ عزّت بخشی ہے ۔
سالِ نو یعنی دو ہزار بیس کا آغاز ہونے کو ہے،اس خاکسار کی دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ آپ سب دوست جہاں بھی ہیں خوش رہیں ،آباد رہیں اور سال ِ نو آپ سب کے لیئے کامیابیاں اور ڈھیروں خوشیاں لائے(آمین)
انشاء اللہ اب سالِ نو دو ہزار بیس میں نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ ملاقات ہو گی کیونکہ ابھی امتحاں اور بھی ہیں ۔ اپنا خیال رکھئے گا ۔ آپ کی دعاوں کا طلب گار ، احتشام الحق شامی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احتشام الحق شامی کے کالمز
-
حقائق اور لمحہِ فکریہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
تبدیلی، انکل سام اورحقائق
بدھ 26 جنوری 2022
-
’’سیکولر بنگلہ دیش اور حقائق‘‘
جمعہ 29 اکتوبر 2021
-
”صادق امینوں کی رام لیلا“
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
”اسٹبلشمنٹ کی طاقت“
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
ملکی تباہی کا ذمہ دار کون؟
بدھ 29 ستمبر 2021
-
کامیاب مزاحمت آخری حل
بدھ 1 ستمبر 2021
-
"سامراج اور مذہب کا استعمال"
جمعہ 27 اگست 2021
احتشام الحق شامی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.