’’ مریم نواز کا سیاسی مستقبل ‘‘‎

منگل 18 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

اب اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں باقی نہیں رہا کہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو اگر اس وقت ملک کی کسی سیاسی شخصیت سے کسی قسم کا کوئی خطرہ ہے تو وہ نواز شریف،آصف زرداری،بلاول بھٹو یا مولانا فضل الرحمان نہیں بلکہ مریم نواز شریف ہے ۔ اب تک کے حالات کے مطابق بلکہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد مریم نواز پوری طاقت اور قوت کے ساتھ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے سامنے آ کھڑی ہوئی ہیں ۔

سپریم کورٹ سے نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ان کے انتخابی حلقے این اے ایک سو بیس سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی امیدوار، ان کی اہلیہ مرحومہ کلثوم نواز کی کامیاب انتخابی مہم اور پھر اس کے نتیجے میں واضع کامیابی سے بھی ثابت ہو گیا تھا کہ تمام تر ریاستی وسائل، ہتھکنڈوں اور رکاوٹوں کے باوجود مریم نواز نہ صرف ایک بہترین سیاسی لیڈر کی صلاحیتوں کی حامل ہے بلکہ نواز شریف کی سیاسی جانشیں بننے کی بھی پوری طرح اہل ہے ۔

(جاری ہے)

نواز شریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیئے یعنی’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کو بامِ مقبولیت پر پہنچانے میں بھی مریم نواز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا،جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج ہر سیاسی کارکن اور لیڈر ووٹ کی عزت اور حرمت کی بات ہی کر رہا ہے ۔
گو کہ کسی بھی طور سابق وزیرِا عظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے مریم نواز شریف کا مواز نہ کرنا درست یا مناسب نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے بھٹو شہید نے اپنی زندگی میں محترمہ بے نظیر شہید کی سیاسی تربیت کی اسی طرح نواز شریف نے بھی اپنے ادوارِ اقتدار میں مریم نواز کو سیاسی اور حکومتی اسرار و رموز سے آگاہ کیا اور ان کی سیاسی تربیت کی ۔

ایک انٹرویو میں مریم نواز نے بر ملا کہا تھا کہ’’ بی بی شہید ان کی آءڈیل تھیں ‘‘ ۔ اس بات سے اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ مریم نواز کی سیاسی سوچ کا دھارا کس جانب ہے ۔
جب آخری مرتبہ انہیں گرفتار کیا گیا تھا تو سیاسی مخالفت کے باوجود بلاول بھٹو نے اسمبلی کے فلور پر انتہائی غصے اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے موجودہ حکمرانوں کو مریم نواز کو گرفتار کروانے پر بے غیرت تک کہ دیا تھا ۔

یہی نہیں بلکہ ملک کی دیگر سیاسی قوتوں نے بھی جو مریم نواز شریف کو ملک کی مقتدرہ کے خلاف ایک بڑے کھلاڑی اور مستقبل کی سیاست میں اہم مقام پر کھڑا دیکھ رہی ہیں ،اپنے سیاسی اختلافات کے باوجود پر ایسے موقع پر ان کے خلاف ریاست کے ناروا اور زاتی عناد پر مبنی رویے پر شدید مذمت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے ۔ اس لیئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نواز شریف کے بعد اب ان کی بیٹی اسٹبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کرنے والی بڑی علامت بن چکی ہے اور جس کی آواز کے ساتھ آواز ملانا اب ہر سیاسی لیڈر کی مجبوری بن چکی ہے ۔

یہی وہ ڈر اور خوف ہے جس سے اسٹبلشمنٹ ابھی سے خوف کھائے جا رہی ہے ۔ جس کا اظہار کبھی انہیں جیل بھیج کر،کبھی عدالتوں کے کٹہرے میں حاضر کروا کر کبھی ہاوس اریسٹ کر کے کبھی ٹیوٹ کرنے سے منع کر کے اور کبھی ان کا نام ای سی ایل میں ڈال کر کیا جاتا ہے لیکن خوف ہے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اب مریم نواز کی سیاسی سوچ اور نظریہ کے خوف عالم یہ ہے کہ کوئی بھی ٹھوس بنیاد اور الزام نہ ہونے کے باوجود انہیں اپنے بیمار والد نواز شریف کے آپریشن کے دوران ان کے پاس جا کر موجود رہنے سے روکا جا رہا ہے ۔


یہ بھی سب نے دیکھا کہ مریم نواز نے جہاں ایک جانب گھر بیٹھ کر اپنی ٹویٹ سے کر سیاست کے عملی میدان میں نکل کر اپنے واحد سیاسی مخالف عمران خان کے ناک میں دم کیا تو دوسری جانب اسٹبلشمنٹ کو بھی للکارا ۔ عدالتوں میں پیشیاں بھگتیں ، حوصلہ کے ساتھ جیل کاٹی لیکن اپنے فالورز کو مایوس نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جہاں جہاں اور جب جب جلسے کیئے کامیابی سمیٹی ۔

اگر عمران خان نے اپنے کنٹینر سے نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیئے لچھے دار اور دھواں دار تقریروں اور ڈی جے کا سہارا لیا تو مریم نواز نے ن لیگ کے خاموش حماءتیوں اور نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیئے انہیں سوشل میڈیا پر ایکٹو کیا ۔ ملک بھر میں سوشل میڈیا ٹی میں قائم کیں ،اس حوالے سے سیمینار اور تقاریب منعقد کیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سوشل میڈیا سیل سے جہاں آج حکومت خاءف ہے تو وہاں اسٹبلشمنٹ میں موجود نواز شریف مخالف لابی بھی شدید خوفزدہ ہے اور گھبراہٹ کا عالم یہ ہے سوشل میڈیا کو مکمل کنٹرول کرنے کے ایسی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جن کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی ۔


حقیقتِ حال یہ بھی ہے تمام تر انتقامی کاروائیوں کے باوجود بھی ابھی تک حکومت کوئی ایک’’ ن‘‘ لیگی عہدیدار یا کسی بھی ممبر پارلیمنٹ کو نہیں توڑ سکی بھی ۔ نواز شریف اور مریم نواز کے علاوہ ’’ن‘‘ لیگ کی درجہ دوئم کی قیادت جو یا تو جیلیں بھگت کر آئی ہے یا جو ابھی بھی جیلوں میں قید ہے، اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ’’ ن‘‘، نواز شریف ہی کی قیادت میں تا حال متحد اور منظم ہے، ووٹ کو عزت دو کے بیانئے پر قائم ہے اور پارٹی میں کسی بھی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ۔

اس صورتِ حال میں اگر نواز شریف اگلے بلکہ قبل از وقت الیکشن کے نتیجے میں بلفرض مریم نواز کے ایم این اے بننے کے بعد قومی اسمبلی میں انہیں پارلیمانی لیڈر مقرر کرتے ہیں تو انہیں سو فیصدی پارٹی حمایت حاصل رہے گی ۔ کیونکہ یہ شہباز شریف کا نہیں بلکہ یہ نواز شریف کا فیصلہ ہو گا جس کی تصویر پر ان کی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر الیکشن جیت کر قومی اسمبلی میں موجود ہوں گے ۔

’’ ن ‘‘ لیگ کے اندر بھی اب غیر محسوسانہ طور پر یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ اگلے الیکشن میں نواز شریف کی عدم شرکت (بوجہ عدالتی سزا) کے باعث مریم نواز ہی نواز شریف کی جگہ لیں گی ۔ اگر اس بات میں کوئی حقیقت نہ ہوتی تو آج مریم نواز اپنے گھر میں نظر بند ہو نہ ہوتیں اور ان پر قائم مقدمات یا الزمات اب تک ختم ہو چکے ہوتے ۔
مریم نواز کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مختلف سیاسی تجزیہ کاروں بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی بھی یہی رائے ہے کہ اگر’’ ن‘‘ لیگ کو متحد اور منظم رکھنا مقصود ہے تو نواز شریف کے عدم موجودگی میں مریم نواز سے بہتر کوئی چوائس نہیں ۔

نامساعد اور مشکل ترین حالات میں بھی جس طرح مریم نواز نے بسترِ مرگ پر وینٹی لیٹر پر پڑی اپنی والدہ کو چھوڑ کر پاکستان آ کر اسٹبلشمنٹ کو للکار جیل کاٹی اور پھر دلیری کے ساتھ اس کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا ۔ وہ امر حیران کن ہی نہیں تھا بلکہ اب اس بات کا متقاضی ہے کہ ن لیگ کی قیادت نواز شریف کی عدم دستیابی کی صورت میں مریم نواز شریف کے حوالے کی جائے ۔


اب تو حالات نے بھی ایسا رخ اختیار کیا ہے کہ مریم نواز کے واحد اور بڑے مخالف چوہدری نثار بھی بل آخر نواز شریف سے لندن جا کر ان سے ملنے پر مجبور ہوئے ۔ گو کہ نواز شریف نے انہیں اپنی ملاقات نہیں دی لیکن کم از کم یہ ضرورواضع ہو گیا کہ اب’’ ن‘‘ لیگ میں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے مشترکہ بیانیئے کے خلاف کوئی موجود نہیں اور جو تھے وہ بھی اب ان کے پیچھے چلنے کو تیار ہیں ۔

مذکورہ صورتِ حال کے پیشِ نظر اور اس کے تدارک کے لیئے ہی مریم نواز مخالف قوتیں اور اسٹبلشمنٹ اس وقت پوری تن دہی اور توجہ کے ساتھ مریم نواز کی مقبولیت اور سیاست کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں ۔ لیکن ہمیشہ سے ہی یہ دیکھا گیا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی جانب سے جس فرد ،گرہ یا سیاسی قوت کو دبانے یا ختم کرنے کی کوشش کی گئی وہ دوگنی قوت کے ساتھ ابھر کر منظرِ عام پر آئی ۔
اسی باعث اگر اسٹبلشمنٹ کا مریم نواز شریف کے ساتھ موجودہ رویہ برقرار رہا تو پھر امیدِ قوی ہے کہ مریم نواز کا سیاسی مستقبل روشن اورتابناک ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :