
چور حکمران اور سہولت کار
پیر 6 اپریل 2020

احتشام الحق شامی
(جاری ہے)
جو عادی چور اس وقت اس ملک پر خلائی مخلوق کی جانب سے نازل کیئے گئے ہیں ، جب یہ اقتدار میں نہیں بھی لائے گئے تھے تو بھی ان کی چوری کی وارداتیں بدستور جاری تھیں ،کبھی نمل یونیورسٹی، کبھی شوکت خانم اسپتال اور کبھی نیا پاکستان بنانے کا عوام کو جھانسہ دے کر لوٹا جاتا رہا اور غریب عوام کے پیسے سے دوبئی اور امریکہ میں جائیداتیں کھڑی ہوتی رہیں ۔
پانچ سالوں سے عدالتوں میں زیرِ التوا پی ٹی آئی منی لانڈرنگ کیس چیخ چیخ کر خاکسار کے مذکورہ الفاظ کی تصدیق کر رہا ہے ۔اس سے بھی پہلے جب انہیں صوبہ خیبر پختون خواہ چلانے کا موقع دیا گیا تھا تو وہاں بھی کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں رقم کی گئیں ۔ بلین سونامی ٹری منصوبہ،بی آر ٹی اور پھر مالم جبہ میگا کرپشن اسکینڈل کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن عوام کے سامنے اپنی چوری پکڑے جانے اور ننگے ہو جانے کے ڈر سے سپریم کورٹ سے سٹے لے لیا گیا اور تحقیقات کو روک دیا گیا ۔
ماضی میں ایمنسٹی اسکیم کو گالیاں نکالنے والے انہی عادی چوروں نے راتوں رات اسی اسکیم کے طفیل عوام سے لوٹے گئے اپنے اربوں روپے کے کالے دھن کو حلال کیا اور اب ہاتھ میں تسبیح کے دانے پھیرتے ہوئے حکومتی ایوانوں مومن،اور صادق امین بنے بیٹھے ہیں ۔ ان چوروں کے جانے کے بعد یہ حقیقت بھی سامنے آئے گی کہ کرونا وائرس کے حوالے سے ملنے والی امداد پر کس قدر ہاتھ صاف کیا گیا ۔ فی الحال "نیا پاکستان" میں دوسروں کو چور چور کہنے کا شور شرابا لگا کر جاری لوٹ مار کا تماشہ دیکھتے رہیئے ۔
جیسا کہ عرض کیا ہے کہ اس وقت عادی اور پیشہ ور چور ملک پر مسلط ہیں ۔ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد بھی ان چوروں نے اپنی چوری کرنے کی روش سے باز نہیں آنا،یہ پھر کسی اور انداز سے سادہ لوح عوام کو لوٹنا شروع کر دیں گے لیکن حیران کن امَر یہ ہے ان چوروں اور لٹیروں کو ملک کے اہم اور حساس عہدوں پر بٹھانے والے سرکاری اور ریٹائرڈ سہولت کار بدستور ان کی پشت پناہی کیئے ہوئے ہیں اور پسِ پردہ رہ کر ہر ممکن طریقے سے ان چوروں اور فراڈیوں کے اقتدار کو دوائم دینے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں ۔ آج کہاں وہ’’ مقتدر قوتیں ‘‘ جن کے احکامات پر ملک کے منتخب وزیرِا عظم کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لینے کے الزام میں فوراً ناہل کیا جاتا ہے اور محض اخباری خبروں پر مبنی الزامات پر اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیئے کہا جاتا ہے؟(گو کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت بھی کر جاتے ہیں لیکن بارہ بارہ ماہ کی قید کاٹ کر)
آج غیر ملکی میڈیا میں بھی اس بات کے تبصرے ہو رہے ہیں کہ جب چینی اور آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کیا جا رہا تھا تو محبِ وطن کہلانے والی’’ اصل سرکار ‘‘کہاں سوئی ہوئی تھی؟ ۔ کل مذید تبصرے سننے کے لیئے تیار رہئے جب لکھا جائے کہ’’اس وقت ملکِ پاکستان کے ’’مقتدر حلقے‘‘کہاں تھے جب غیر آئینی،غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر ایک مخصوص سیاسی جماعت یعنی پی ٹی آئی کو نوازنے اور اسے اقتدار میں لانے کے اپوزیشن کے ووٹ چوری کیئے جا رہے تھے اور پھر جب ملک کو لوٹنے کے بعد اسے معاشی طور پر دیوالیہ کر کے آئی ایم ایف کے شکنجے میں دیا جا رہا تھا ؟ لیکن اس وقت ایک "سرکاری ملازم" نے اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیئے ملک کی موجودہ نا گفتہ بہ اور سنگین ترین معاشی صورتِ حال پر کیوں خاموشی طاری کیئے رکھی؟ ۔
کون ذی شعور اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ علاقے کے تھانیدار کی ملی بھگت کے بغیر علاقے میں چوری اور دیگر وارداتیں ممکن نہیں ہوتیں ۔ آج ملک کے ہر گلی کوچے میں اور ہر خاص و عام کی زبان پر اس حقیقت کے چرچے ہیں کہ ملک خداداد میں ’’ِ نیا پاکستان‘‘ اور’’ ملکی سلامتی‘‘ کے نام پر جو لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس میں ان چوروں کو بائیس کروڑ عوام پر مسلط کرنے والے حاضر اور ریٹائرڈ سہولت کار برابر کے شریک ہیں بلکہ حصہ دار ہیں ۔
اگر تو کسی محبِ وطن نے بغضِ نواز میں یہ قسم کھائی ہے کہ ان چوروں اور رسّہ گیروں کو حکومت کی مدت پوری کرنے دینا ہے یا پھر اپوزیشن کا وہی پرانا بیانیہ کہ ان چوروں کو سیاسی شہید نہیں بننے دینا بلکہ انہیں اپنی موت آپ مرنے دینا چاہیئے تو پھر سب اپنی اپنی خیر منائیں ۔ کیونکہ تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی اور سر پر سے بہت پانی گزر چکا ہو گا ۔ غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرے کے نشان سے نیچے پہنچ چکے ہیں ،ملک ہر لحاظ سے تقریباً معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے، وہ دن بھی زیادہ دور نہیں جب اس ملک میں قحط سالی،خانہ جنگی و سول نافرمانی کا دور دورہ ہو گا ۔حکمرانوں کے روپ میں ملک پر مسلط کیئے گئے چوروں اور لٹیروں کی نام نہاد پالیسیوں کے سبب کئی سرکاری اداروں کے ملازمین کو آئندہ ماہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیئے خزانے میں پیسہ نہیں ،پیسہ آئے گا کہاں سے جب سب کچھ ان دو سالوں میں لوٹا جا چکا ہو ۔
ملکی حالات کو پوری منظم سازش کے تحت اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ خدا نا خواستہ ملک کے بینک کرپٹ ہونے کی صورت میں عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے مذید قرضہ دینے کے ملک کی دفاعی اور جوہری صلاحیت پر کسی قسم کی قدغن لگانے کا سوال نہ کر دیا جائے ۔ یہ خدشہ ملک کے سنجیدہ طبقے پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں ۔
آخر میں عرضِ پرواز ہوں کہ حالات یکسر بدل چکے ہیں اور حقائق کا سامنا کیئے بغیر مشکلات سے باہر آنا ممکن نہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ چوری شدہ ووٹوں کی بنیاد پر کھڑی، ڈگمگاتی اور لزرتی حکومتِ عمرانیہ کی عمارت کے تعمیر کنندگان اور سہولت کار زمینی ،حالات کا سامنا کریں جو ملک میں غیر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ آخر کب تلک کسی منتخب وزیرِاعظم کو کرپٹ، غدار،ملک دشمن اور اپنا ناپسندیدہ قرار دے کر ملک میں اس ووٹ چور حکومتِ عمرانیہ کی لزرتی ،ڈگمگاتی اور ڈاکووں ،لٹیروں کی اِس حکومت کی مسلسل پشت پناہی کی جاتی رہے گی اور عوام پر ان کا عرصہِ حیات تنگ کیا جاتا رہے گا؟ ۔
خدارا، اب تو اس ملکِ خداداد پر رحم کیجئے،اس کے ساتھ اور کتنا کھلو اڑ کریں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احتشام الحق شامی کے کالمز
-
حقائق اور لمحہِ فکریہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
تبدیلی، انکل سام اورحقائق
بدھ 26 جنوری 2022
-
’’سیکولر بنگلہ دیش اور حقائق‘‘
جمعہ 29 اکتوبر 2021
-
”صادق امینوں کی رام لیلا“
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
”اسٹبلشمنٹ کی طاقت“
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
ملکی تباہی کا ذمہ دار کون؟
بدھ 29 ستمبر 2021
-
کامیاب مزاحمت آخری حل
بدھ 1 ستمبر 2021
-
"سامراج اور مذہب کا استعمال"
جمعہ 27 اگست 2021
احتشام الحق شامی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.