نقاب پوشوں کا نشانِ عبرت بننا قریب ہے

منگل 19 مئی 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

پر اسرار عمارتوں کے کمروں میں سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سازشیوں کو شاید پوری طرح سے حالات کا ادراک نہیں کہ اس وقت اصل میں ملک کے زمینی حقائق کیا ہیں اور ملکی صورتِ حال کس نہج پر کھڑے ہیں۔ ریاست کی جانب سے طاقت اور بے پناہ اختیارات کے نشے میں چور ان مد ہوشوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ایک عام شہری ہی نہیں بلکہ ایک دیہاتی بھی اب کیا سوچ رہا ہے اور اپنے آپ کو آنے والے کونسے حالات کے لیئے زہنی طور پر تیار کر رہا ہے۔

 
کسی بھی خطے میں انقلاب برپا ہونے کے لیئے جو حالات اور واقعات درکار ہوتے ہیں، ملکِ پاکستان میں وہ تقریباً مکمل طور پر بن چکے ہیں۔ بس کہیں سے بغل بجنے کی دیر ہے کہ عوام اپنے گھروں سے باہر نکلیں گے اور ان سازشیوں کو ان کے گھروں اور دفتروں سے باہر نکال گریبانوں سے پکڑ کے سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔

(جاری ہے)

 

ملکِ خدا داد کی ستّر سالہ تاریخ میں سرکاری سطح پر جس قدر لوٹ مار اور قومی اور حساس اداروں کی بے توقیری اس موجودہ دور میں ہوئی ہے اتنی ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں بھی نہیں ہوئی تھی۔

اس وقت تو ہاتھوں میں پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر اور قومی سلامتی کا ورد کرتے ہوئے ملک میں عالمی اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے چکر میں ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ ان دو سالوں میں ملکِ خداداد کے ساتھ کیسا کیسا کھلواڑ کیا گیا اس کی تفصیل لکھ لکھ کر لیپ ٹاپ کے بٹن گھس گئے ہیں،لیکن ضرور یاد رکھیئے گا کہ ملک میں متوقع انقلاب میں عوام کے غصے اور غصب کا محور یہی پراسرار عمارتیں اور ان کے مکین ہوں گے چاہے وہ اپنے آپ کو کتنے ہی طاقتور کیوں نہ سمجھتے ہوں۔

 ہنستے بستے ملک کو صرف اپنی نوکریوں، مفادات اور عہدوں کی خاطر اس نہج پر پہنچانے والوں نے چونکہ نقاب اوڑھ رکھے ہیں اس لیئے انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے مکروہ اور شرمندہ چہرے بھی کوئی دیکھ سکے گا،لیکن وہ اس دن سے ڈریں کہ عنقریب جس دن اسی ملک کے بے بس عوام ان کے چہروں پر پڑے نقابوں کو اتار کر پھینکے کا عمل شروع کریں گے تو انہیں بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔

کیونکہ ہونی ہو کر رہتی ہے اور جو ہونے والا ہے وہ درو دیوار پر صاف لکھا دکھائی دے رہا ہے۔ اب اگر اقتدار اور ریاستی طاقت کے نشے میں کسی کی آنکھیں نہیں کھل رہیں تو اس میں ہمارا قصور نہیں کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔ 
ماسوائے ملکِ پاکستان کے واحد اور محب الوطن ٹی وی چینل آر وائے اور پاکستانی درجہ اول صابر شاپر کے، پاکستان کا کوئی ایک بھی میڈیا پرسن ایسا نہیں جو اب بر ملا طور پر حکومتِ وقت کی عوام کش پالیسیوں اور اسے عوام کے سروں پر مسلط کرنے والوں کی کھلے الفاظ میں مذمت نہ کر رہا ہو۔

بین القوامی میڈیا کو ہی دیکھ لیجیئے،پاکستان کو ہر حوالے سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 
بدترین اقتصادی، داخلہ اور خارجہ پالیسی اور اب تو بلخصوص کرونا وائرس کے حوالے سے ناکام حکومتی حکمتِ عملی اور پاکستانی عوام کے لیئے ملنے والی عالمی امداد کو ہڑپ کے حوالے سے بھی اب عالمی سطح پر آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ لیکن قوم کا مال ہڑپ کرنے والے بے شرموں نے نقاب اوڑھے ہیں اس لیئے دنیا کیا کہ رہی ہے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔

کونسا کوئی ان کی مکرہ شکلیں دیکھ رہا ہے۔ 
ایک صاحب نے تبصرہ بھیجا ہے جس سے میں متفق ہوں کہ کہ قوم کی ذہن سازی کرنے والے نام نہاد دانشور پراپوگنڈے کو سچ مان کر اپنی تصدیق کی شہادت دے دیتے ہیں۔ یہ معاشرے کے نوٹری پبلک ہیں ہر وقت اور ہر جگہ مہر اور پیڈ جیب میں رکھتے ہیں سو اورور پچاس روپے کی خاطر ہر الزام پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔ 
شاید یہ لوگ یوم حساب کے منکر ہو چکے ہیں کل قیامت کے دن اللہ جب ان سارے جھوٹے دانشوروں سے ان بہتانوں کی تصدیق چاہے گا تو ان ظالموں وہاں یہ نہیں پہنچیں گے ثبوت دینے کے لئے وہ خود جھوٹی شہادتوں کی صلیبوں پر لٹکتے ہوئے نظر آئیں گے۔

ہم نہیں کہتے کہ ایسے دانشور نواز شریف، آصف زرداری اور دوسر ے سیاستدانوں کے قصیدے لکھیں،صرف درخواست یہ ہے کہ علم تجربہ اور عمر کے اس حصے میں پہنچ کر یا تو سچ لکھو جس بات کی تصدیق نہ ہو دوسروں کی کردار کشی میں حصہ دار نہ بنو۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :