پانچ اگست ،کشمیر اور صورتِ حال

ہفتہ 1 اگست 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 5 اگست کو بابری مسجد کی جگہ ایودھیا مندر کا سنگ بنیاد رکھے گا جبکہ اسی دن یعنی 5اگست کو لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے مظلوم کشمیری’’ یوم استحصال‘‘ مناتے ہوئے دنیا بھر کو اپنی بے بسی اور لاچاری دکھائیں گے جبکہ اپنے آپ کو ’’سفیرِ کشمیر‘‘ قرار دینے والے کشمیر فروش عمران خان تحریکِ آذادی کشمیر کے بیس کیمپ مظفرآباد میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے اور ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے مودی کو للکار کر کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کی ڈرامہ بازی کریں گے ۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ کشمیریوں کو ’’یومِ استحصال‘‘ کشمیر فروش حکومتِ عمرانیہ کے خلاف منانا چاہیئے جس نے کشمیریوں کی سودے بازی میں کھل کر اپنا کردار ادا کیا اور کشمیری قوم کو دھوکا دیا ۔

(جاری ہے)


پچاس برسوں سے سری نگر میں پاکستانی پرچم اٹھائے بزرگ کشمیری لیڈر علی گیلانی چند دن قبل موجودہ پاکستانی قیادت اور پالیسی سازوں سے اپنے بیان کے زریعے مایوسی اور نا امیدی کا اظہار کر چکے ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر کے دیگر پاکستان نواز لیڈروں نے بھی علی گیلانی کی طرح کشمیر کے معاملے پر موجودہ پاکستانی حکومت کی سرد مہری اور منافقت پر سخت مایوسی اور افسوس کا ظہار کیا ہے ۔ ظالم اور قاتل مودی سرکار نے جو کہا اور کیا برا کیا،ظلم کیا لیکن کر دکھایا ۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے ان دو سالوں میں مقبوضہ کشمیر کے عوام اور مقبوضہ ریاست کی آذادی کے کیا سنجیدہ اقدام اٹھائے؟ ۔

اس کا جواب یقینا نفی میں ہے ۔ جن حکمرانوں کو ابھی نندن کو باعزت واپس بھارت روانہ کرنے میں اس سے بھی زیادہ جلدی ہو اور جو کلبھوشن کی رہائی کے لیئے بے چین ہوں تا کہ مودی ایک بار ان کا فون اٹھا لے، بیچارے کشمیری ان منافق حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں سے کشمیر کی آذادی کی توقع اور آس لگائے بیٹھے ہیں کہ جو مودی سرکار کو خوش کرنے کے چکر میں کرتار پور بنانے، ابھی نندن کو چھوڑنے ،کلبھوشن کی بھارت حوالگی کی کوششیں کرنے اور اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بھارت کی رکنیت میں سہولت کاری کرنے میں پیش پیش رہے ہیں ۔

بالفاظِ دیگر آج سے پہلے کشمیری اس’’ امید‘‘ سے رہے ہیں کہ پاکستانی خبر نامہ میں سری نگر اور جموں کا درجہ حرارت بتانے والے بہادر سپوت ان کی بھارتیِ جبر سے آذادی کے لیئے جنگ لڑیں گے لیکن آج کی تاریخ میں صورتِ حال یکسر مختلف ہے ۔
ریاست نے وقت ا ور موجودہ سیاسی ماحول کے مطابق اور حسب ِ’’پالیسی‘‘ بھارت دشمنی کا مصالحہ اپنے نمائندے عمران خان کے اقتدار کی دیگ میں ضرور ڈالا ہے لیکن عوام کے بڑھتے ہوئے شعور کے باعث دیگ پک نہیں سکی ۔

اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی مقتدر قوتوں کی بنائی ہوئی پالیسیوں کے مطابق پاکستان کا ریاستی بیانیہ بھی بھارت کی مخالفت کے بغیر مکمل نہیں ہوتالیکن ستّر سالوں سے بھارت کی دشمنی اور مخالفت پر کھڑی پاکستانی اور کشمیری قوم آج پاکستانی’’ فیصلہ سازوں ‘‘ سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ بھارت دشمنی کی انگیٹھی کو ہوا دے کر جلائے رکھنے کے باوجود اب تک بجائے کشمیروں کے لیئے کسی بہتری ہونے کے، ان کے لیئے ان کی اپنی ہی زمین کیوں تنگ ہونے لگی ہے؟ ۔


دوسری جانب مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں زمین یا جائیداد حاصل کرنے کے لئے سیکیورٹی فورسز کے قوانین میں نرمی کردی ہے جو اس متنازعہ خطے میں بھارتی انتظامیہ اور فورسز کے ذریعہ زمین کے حصول کے لئے ڈومیسائل حاصل کرنے کی شرط یا ضرورت کو ختم کرتی ہے ۔ واضع رہے کہ جموں وکشمیر کی بھارتی انتظامیہ نے 1971 کے ایک سرکلر کے ذریعہ مقرر کردہ اس ضرورت یا قانونی شق کو ختم کر لیا ہے جس کے تحت اس متنازعہ خطے میں زمین حاصل کرنے کے لئے بھارتی سیکیورٹی فورسز اور دیگر دفاعی اداروں کو بھی ڈومیسائل حاصل کرنا تھا ۔

با الفاظِ دیگر اب بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر میں بغیر این او سی کے زمین خریدنے یا حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے ۔
گذشتہ سال 5 اگست کو، مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور اس سے متعلقہ آئینی شقوں کو کالعدم قرار دے کر مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی جزوی خودمختاری کو مؤثر طریقے سے ختم کرتے ہوئے اسے وفاق کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا تھا ۔

5 اگست کو بھارتی پارلیمنٹ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کے یکطرفہ فیصلے کو ایک سال مکمل ہو جائے گا اور مودی سرکار سرعت سے اپنے ایجنڈے کو بڑھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے میں مصروفِ عمل ہے۔
یہ وہ کھلی حقیقت ہے جسے مودی کو گالی دے کر جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ پاکستان کے نام پر ایک لاکھ سے زائد شہادتوں اور ستّر برس کے انتظار کرنے کے بعد اگر تحریکِ آذادی کشمیر‘‘ کا یہ نتیجہ نکلا ہے تو اس کا ذمہ دار بھارت نہیں بلکہ کشمیریوں کے وکیل ہونے کا دعویٰ کرنے والا ہی ہو سکتا ہے، اسی لیئے اب کشمیروں نے نا امید ہو کر اب پاکستان، اس کی آخری گولی اور آخری سپاہی کی جانب دیکھنا چھوڑ دیا ہے ۔

کشمیری اب کسی کی دکان داری کا سامان بننے کے لیئے تیار نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :