تھوڑا نہیں زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے

اتوار 27 ستمبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

ایک خبر کے مطابق کوئی پچاس کے قریب سرگرم سوشل میڈیا ارکان اور صحافیوں کے خلاف ریاستی اور حاکموں کے آداب کی خلاف ورزی کرنے پر مقدمے بنائے گئے ہیں ۔ عرض ہے، اَب بھلے آپ اپنی کٹھ پتلی حکومت یا خود پر یعنی اشٹبلشمنٹ پر تنقید کرنے یا سوال اٹھانے کی پاداش میں حال ہی میں ہنگامی طور پر بنائے کسی قانون کی آڑ میں اپنے عوام پر مقدمے بنانا یا ان پر ملک دشمنی اور غداری کے فتوے بانٹنا شروع کر دیں ،اس سے عوامی جذبات کے موجودہ بہاءو کو روکنا یا اسے کسی دوسری جانب موڑنا ممکن نہیں ہو گا ۔

وقت بہت بدل چکا ہے شائد ابھی تک آپ کو اس کا ٹھیک سے اندازہ نہیں ہوایا پھر آپ کو سوچ بچار کرنے کی عادت نہیں ۔
پہلے آپ نے سوچے بغیر احتساب کے نام پر ملک کی پاپولر لیڈر شپ کو دیوار سے لگایا، اس کا نتیجہ حالیہ اے پی سی میں سامنے آ گیاجو ابھی تک آپ کے ہوش و ہواس اڑائے ہوئے ہیں ۔

(جاری ہے)

صرف ایک’’ تقریر‘‘ کے بعد آپ جاریحانہ سے دفاعی پوزیشن پر چلے گئے ہیں جبکہ نواز شریف کا بیانیہ اب ملک کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہا ہے ۔

شیخ رشید کا مولانا فضل الرحمان کو بھائی کہنے کا اور کیا مطلب ہے لیکن لگتا ہے، اب آپ’’ قومی سلامتی‘‘ کے نام پر اپنے ہی عوام پر بے جا قسم کی پابندیاں لگا کر عام پبلک کی جانب سے بھی اے پی سی والا جیسا اعلامیہ کھلے عام سننا چاہتے ہیں ۔ جس میں آپ کے شیخ رشید جیسے تنخواہ دار بھی ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوں گے ۔ لہذا یاد رکھیئے گا جس دن بائیس کروڑ عوام نے سڑکوں پر نکل کر آپ پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر دیا تو پھر ممکن نہیں ہو سکے گا کہ ملک کے کروڑوں عوام کو بھارت کا ایجنٹ یا ملک دشمن قرار دیا جا سکے ۔


آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہو گا اگر ابھی تک اس بارے میں نہیں سوچا تو سوچنا شروع کیجئے اور ساتھ میں یہ بھی ضرور سوچیئے گا کہ مصنوعی طریقے سے آخر کب تک آپ اپنی عزت اور احترام کرواتے رہیں گے؟ ۔ ایسا وقتی طور تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن ایسی حکمتِ عملی کسی لمبے عرصے پر محیط نہیں ہو سکتی، جبکہ زبردستی عزت اور احترام کروانے کا سب سے بھیانک ساءڈ افیکٹ شدید عوامی نفرت اور حقارت کی صورت میں نکلتا ہے ۔


ملک کے عوامی حمایت یافتہ سیاستدانوں سے آپ نے بار بار مقابلہ کر کے بھی دیکھ لیا،اور ہاتھ بھی کچھ نہ آیا ۔ البتہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے سرکاری بیانیئے کے برعکس ملک میں عوامی اور سول بالادستی کا بیانیہ زور پکڑتا دکھائی دیا ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میں سوچا کریں ،سوچنے سے ہی درپیش مشکلات کے حل نکلتے ہیں ۔ بجائے حقائق سے ٹکر لینے سے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :