مذمتی بیانوں پر مبنی خارجہ پالیسی اور لہو لہان کشمیر‎

پیر 16 نومبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

آذاد کشمیر کے وزیرِا عظم راجہ فاروق حیدر خان نے دو دن قبل پریس کانفرنس کر کے تمام ریاستی سیاسی جماعتوں کو مشاورت کرنے اور اتحاد و یگانت کی دعوت دی ہے ۔ ریاستی اپوزیشن کو بھارتی جارحیت کے حوالے سے اس قسم کی دعوت دینے کا مقصد سمجھ سے باہر ہے، اس دعوت یا پیشکش کا کوئی حاصل وصول نہ ہو گا ۔ بھارتی گولا باری اس طرح کے کسی اتحاد اور یگانت وغیرہ سے نہ رکے گی اور نہ ہی نریندر مودی مظفر آباد آ کر راجہ صاحب کے پیر پکڑے گا ۔


جبکہ اس کے برعکس اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ راجہ صاحب مستقبل قریب میں آذاد کشمیر کو ممکنہ طور پر پاکستان کا صوبہ بنائے جانے کے حوالے سے دو ٹوک موقف اپنا کر اپوزیشن خاص طور پر ریاستی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور قوم پرست جماعتوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے کی کوششیں کریں اور کشمیر فروشوں کی پاکستانی ناکام وزارتِ خارجہ کے سہارے لینے اور ایل او سی پر پاکستان کے’’ پیشگی اقدامت‘‘ کے انتظار کرنے کے بجائے از خود اقوامِ عالم میں اپنی آواز بلند کرنے کی حکمتِ عملی مرتب کریں ۔

(جاری ہے)

ممکن سے اس طرح کے عملی او ر ٹھوس اقدامت اٹھنانے سے آذاد کشمیر میں بھارتی گولا باری تھم سکے اور آذاد کشمیر کی بطورِ ریاست اپنی شناخت بھی قائم رہ سکے، باقی کا مقبوضہ کشمیر تو پہلے ہی ہمارے بڑوں نے اپنے آقا امریکہ کے حکم پر بھارت کو پلیٹ میں رکھ کر دے دیا ہے ۔
آذاد کشمیر کی سیاسی قیادت کو یاد رکھنا ہو گا کہ خفیہ ایجنسیوں کے افسران کے بوٹ پالش کر کے وقتی طور پر دو چار سال کا اقتدار تو مل سکتا ہے لیکن تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، خفیہ ایجنسیوں کے افسران اور اہلکاروں کے بریف کیس اٹھا کر چلنے والے سیاستدان کچھ ہی عرصہ بعد گمنامیوں کی نظر ہو جاتے ہیں ۔

عوام میں حد درجہ سیاسی شعور بلند ہونے کے بعد بھی اب اگر پہلے کی طرح’’ افسران‘‘ کے بریف کیس اٹھا کر کرائے کی سیاست کرنی ہے یا پھر اپنے ضمیر کی آواز پر یہ لہو لہان کشمیر کی سیاسی قیادت پر منحصر ہے ۔
حقیقت حال ہے کہ اس وقت لہو لہان کشمیریوں کا خدا کے سوا روئے زمین پر کوئی مدد گار نہیں ، بے یار و مددگار کشمیری قوم نے اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر رکھا ہے ۔

ایسے میں پاکستان کے نام پر ایک لاکھ کشمیریوں کے خون کا سودا کرنے والے سوداگرانِ کشمیر کیسے اور کیوں کر قدرتی نظام کے درد ناک عذاب سے بچ سکتے ہیں کیا آذاد کشمیر کی سیاسی قیادت بھی اس حوالے سے خدا کے کسی عذاب کا شکار ہونے کی خواہشمند ہے ۔
اگر جواب نفی میں ہے تو وزیرِا عظم آذاد کشمیر راجہ فارق حیدر خان اور آزاد کشمیر کی تمام تر سیاسی قیادت لوکل اور تیسرے درجے کے اخبارات میں بیان جاری کرنے کے بجائے ترجیحی بنیادوں پر اپنی زاتی حیثیت میں بیرونِ ممالک میں مقیم اپنے دوستوں اور تعلق داروں کے زریعے ان ممالک کے دارلحکومتوں میں کشمیر کی رہی سہی شناخت ختم کرنے کی غرض سے آزاد کشمیر اور گلگت کو ممکنہ طور پر صوبہ بنانے اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔

بصورتِ دیگر راجہ صاحب جن’’ قوتوں ‘‘ پر تکیہ کیئے بیٹھے ہیں ،ان تلوں میں اتنا تیل نہیں کہ بھارتی جارحیت کا جواب ڈنکے کے چوٹ پر دے سکیں کیونکہ آج کل بھارت کے خلاف صرف مذمتی بیان اور قوم کو بھارتی حملے کے پیشگی اطلاع دینے کی’’ سرکاری خارجہ پالیسی‘‘ چل رہی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :