’’عوام ٹیکس نہیں دیتے‘‘ والا چورن اب نہیں فروخت ہوتا

جمعہ 15 جنوری 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

 دو دن قبل کٹھ پتلی وزیرِا عظم نے اپنی تقریر میں ایک مرتبہ پھر یہ’’ انکشاف‘‘ کیا کہ بائیس کروڑ کی آبادی میں صرف ایک لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں ۔ گویابائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ایک فیصد افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں اوریہ ایک فیصد ٹیکس دینے والے، بائیس کروڑ پاکستانی عوام کا بوجھ اٹھا رہے ہیں ۔
یہی بھاشن یہ کٹھ پتلی صاحب کچھ عرصہ قبل اسپانسرڈ کنٹینر پر کھڑے ہو کر بھی دیا کرتے تھے اور قوم کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کرتے تھے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا بائیس کروڑ کی آبادی میں پیدا ہونے والا ہر بچہ بھی کاروبار کرتا ہے، مدارس، اسکولوں ،کالجوں ، یونیورسٹیوں کے کروڑوں طلباء، لاکھوں کی تعداد میں گھریلو خواتین ،ہسپتالوں میں زیرِ علاج لاکھوں مریض اور گھروں میں موجود لاکھوں ریٹائرڈ بزرگ افراد بھی کیا کوئی کاروبار کرتے ہیں جو ٹیکس نہیں ادا کرتے ۔

(جاری ہے)


حقیقتِ حال یہ ہے کہ ماچس کی ڈبیا سے لے کر پچاس لاکھ کی گاڑی اور دو مرلے کے گھر سے لے کر دس کنال کے فارم ہاوس تک خریدنے والا ہر شخص دیگر اور جنرل سیلز ٹیکس ادا کر رہا ہے ۔

ہر مہینے ملک کا ہر شہری بجلی،گیس اور پانی کے بلوں میں مختلف ٹیکس ادا کرتا ہے ۔ بالفاظِ دیگر یوٹیلیٹی بلز کا نصف ٹیکس کی صورت میں ادا ہوتا ہے ۔ اپنی بائیک یا کسی بھی پاکستانی کے پاس گاڑی اور گھر ہونے کی صورت میں ہر سال پراپرٹی ٹیکس اور ایکسائز ٹیکس کیا کٹھ پتلی وزیرِا عظم خود ادا کرتے ہیں ۔ ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے ہر ماہ انکم ٹیکس کی کٹوتی ہوتی ہے ۔


ملک میں پٹرول کا چالیس فیصد استعمال موٹر سائیکل سوار سفید پوش طبقہ کرتا ہے جو ایک لیٹر پر چالیس روپے جگا ٹیکس حکومت کو ادا کرتا ہے ۔ عوام کی جانب سے صابن کی ٹکیا، سگریٹ کی ڈبیا، موبائل فون کارڈ اور الیکڑانک اشیاء کی خریداری پر کیا کٹھ پتلی سرکار کے سہولت کار سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں اور تو اور بینک سے نقد رقم نکلوانے پر بھی سرکار نے ٹیکس نافذ کر رکھا ہے ۔

حیران ہوں کہ محترم کٹھ پتلی وزیرِ اعظم کس قسم کے ٹیکس کی بات کرتے ہیں جو پاکستان کے عوام ادا نہیں کرتے ۔
’ عوام ٹیکس نہیں دیتی‘‘ یہ طعنہِ عمرانیہ عوام کو اپنی نالائقی چھپانے کی غرض سے سنایا جاتا ہے جبکہ اس طعنے کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ۔ لیوی ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی سمیت درجنوں دیگر ٹیکس جن سے عوام کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے اس کا ذکر تقریر الدین صاحب اپنی تقریر میں کیوں نہیں کرتے قوم کو یہ حقیقت کیوں نہیں بتاتے کہ ملک میں زیادہ تر ٹیکس انڈائریکٹ نظام سے حاصل ہو رہا ہے جو ہر پاکستانی ادا کر رہا ہے ۔


کٹھ پتلی صاحب’’عوام ٹیکس نہیں دیتے‘‘ والا چورن اب نہیں مارکیٹ میں فروخت ہوتا کوئی اور آئیٹم لایئے جس کی ڈگڈگی بجا کر قوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :