نئے مسودہِ قانون کی منظوری

جمعہ 9 اپریل 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

حکومت ِنیا پاکستان کے ایک نئے ترمیمی بل کے مطابق مسلح افواج کا تمسخر اڑانے،بدنام کرنے یا ان پر تنقید کرنے کے الزام میں 2 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا ۔ مذکورہ حکومتی بل کو قومی اسمبلی میں بغیر بحث کے یعنی قومی اسمبلی کے آرٹیکل 19 کو بائی پاس کر کے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ سے منظور کروایا گیا ہے لہذا مذکورہ بل کو آرڈینس کہنا زیادہ مناسب ہو گا ۔

واضع رہے اِس بل کو قانونی شکل دینے کی عرض سے مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور وزارتِ انصاف کی مخالفت کے باوجود پاس کروایا گیا ہے لیکن ہمارا مشورہ ہے کہ اس بل میں عدالتوں اور ججوں پر بھی تنقید کرنے پر جرمانہ اور سزا مقرر کی جانی چاہیئے اور تو اور وزیرِ اعظم عمران خان پر بھی تنقید کرنے پر سزا مقرر ہونی چاہیئے تا کہ تنزلی کا عمل مذید تیز تر ہو سکے۔

(جاری ہے)


دنیا کے مہذب ممالک اور صحت مند معاشروں میں سرکاری اداروں اور محکموں کے سربراہان اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام کا خدمت گزار ثابت کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھتے، یوں ان کے اداروں یا افواج پر عوامی تنقید یا سوال اٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی اور نہ ہی ایسے وہاں ایسے قانون بنانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں گنگا الٹی بہ رہی ہے اور اوپر سے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ عوامی زبان بندی کے لیئے ایسے قانون بنا کر ملک کے دگرگوں حالات اپنے قابو میں کر لیئے جائیں گے،معیشت دوبارہ پانچ اشاریہ آٹھ گروتھ ریٹ پر پہنچ جائے گی یا سب ٹھیک ہو جائے گا،جیسے کبوتر، بلی کو اپنے سامنے دیکھ کر آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگتا ہے ۔


بائیس کروڑ پاکستانی قوم کی افواج کا تمسخر اڑانے والے عناصر کے لیئے مذکورہ سزائیں ناکافی ہیں ایسے عناصر کو تو سیدھا پھانسی کے پھندے تک لے جانا چاہیئے اور ان کی لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹنا چاہیئے لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس مجوزہ بل میں پاکستان کے آئین کو روندنے، مارشل لاء لگانے، آئین کی پاسداری نہ کرنے، آئین کو ردی کی ٹوکری کی نظر کرنے اور پاکستان کے آئین کو محض ایک کاعذ کا ٹکرا کہنے پر بھی قید اور جرمانہ کی سزائیں مختص کی جاتیں؟ ۔


مذکورہ بل کے حوالے سے اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا ردِ عمل آنا ابھی باقی ہے جس کا سامنا کرنے کی موجودہ حکومت میں صلاحیت نہیں ۔ جس کے بعد یہاں بھی سبکی کا سامنا کرتے ہوئے یہ بل واپس لینا پڑے گا ۔ یہاں پھر عرض کروں گا کہ وزارتِ انصاف کی مخالفت کے باوجود مذکورہ بل کی منظوری میں جلدی یا عجلت کاہے کو تھی؟
ہمیں یاد ہے ضیا الحق کے مارشل لا کے زمانے میں راولپنڈی کے سنٹرل ہسپتال کے ساتھ ایک بڑے میدان میں جب جیالوں کو سیڑھی سے باند ھ کر ان کی ننگی کمر پر کوڑے برسائے جاتے تھے تو وہ آگے سے مردہ باد والے کون سے نعرے لگاتے تھے؟ ۔


جنرل ایوب خان کے زمانے میں بھی عوام پر ایسی ہی’’ پابندیاں ‘‘ لگائیں گئی تھیں لیکن ان پابندیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے
بحرحال مختصر کہ یہ بل والی اٹکل بھی کر کے دیکھ لیں ، اس سے بھی ہونا وونا کچھ نہیں ہے ۔ اب لوگ بازاروں اور سوشل میڈیا پر تنقید کے ڈونگرے نہیں برسائیں گے بلکہ پاکستانی قوم کی افواج کو بیرونی ایجنڈوں کی تکمیل اور اپنے زاتی اور مذموم مقاصد کے لیئے استعمال کرنے والے عناصر کے خلاف اپنے گھروں اور نجی محفلوں میں پہنچ کر تسلی سے دل کی بھڑاس نکالا کریں گے ۔
عوام کے دلوں اور دماغوں پر پہرے لگانے کی ضرورت ہے ۔ مذکورہ بل لانے والے ملک کے بائیس کروڑ عوام کے دل و دماغ پر پابندیاں لگانے والی کسی ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :