" غلامی کا نیا روپ "

جمعہ 20 اگست 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

دورِ جدید کی جنگیں بینکروں کی جنگیں ہوتی ہیں،جب بھی جنگ ہوتی ہے،قرضوں کی طلب میں ہزاروں گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔آج کی دنیا پر حکمرانی کے لیئے صرف فوج کی ہی ضرورت نہیں بلکہ قرض دینے کی صلاحیت کی بھی ضرورت ہے۔جو پوری دنیا کو قرضے دے سکتا ہے وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر سکتا ہے، خواہ یہ قرضے بغیر سود کے ہی کیوں نہ ہوں۔کارپوریٹ نو آبادیاتی نظام ازم کی نئی شکل ہے،جس میں کرنسی کو دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیئے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

جنگ کے لیئے سب سے بڑا ایندھن پیسا ہے اور جنگجو قرض حاصل کرنے کے بڑے ذرائع میں سے ایک ہیں۔کرنسی توپ یا بم کی طرح نہیں ہوتی لیکن یہ انتہائی کارآمد اور موثر ہتھیار ہوتی ہے۔یہ دشمن کو اس حد تک کمزوریا معذور کر دیتی ہے کہ اپنی حفاظت کرنا تو درکنار دشمن اپنے معمول کے کام بھی انجام نہیں دے سکتا۔

(جاری ہے)

    ”صقارہ“ میں شائع تحریر”دولت اور جنگیں“ سے اقتباس  ملکِ خداداد آج قرضوں کی دلدل میں ڈوب چکا ہے، رواں سال ماہِ جنوری تک پاکستان کا واجب الادا مجموعی قرضہ 115 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ تھا جو ہم نے ان عالمی بینکروں کو ادا کرنا ہے جو امریکہ کے زیرِ اثر ہیں۔

مثلاً ایشیائی ترقیاتی بینک،ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ۔ اب اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کوئی ملک ہم پر حملہ آور ہو گا تو وہ احمقوں کی سب سے بڑی جنت میں رہتا ہے۔ہم باضابطہ طور پر کارپوریٹ سیکٹر کی غلامی میں جا چکے ہیں،جس کی واضع مثال اور ثبوت آئی ایم ایف کی جانب سے یوٹیلیٹی بلوں اور پٹرول کے نرخ طے اور مقرر کرنا ہے۔
وہ نا اہل نواز شریف بھی یہی سمجھا رہا تھا کہ ملکی معیشت کو مظبوط ہونے دو تا کہ ہم امریکہ کی غلامی سے نکل کر خود مختار اور آذاد ہو سکیں اور عالمی بینکروں کی جنگ سے بچ سکیں، اپنی پالیسیاں خود بنا سکیں پھر کیک کا بڑا پیس اپنے حلق سے نیچے اتار لینا لیکن اگلوں کو شائد زیادہ جلدی اور بے تابی تھی5.8 شرحِ نمو کا بیڑا غرق کیا اورملک پر تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے چڑھائے جس باعث آج ایٹمی طاقت کا حامل ملکِ پاکستان کمزور اور معذور دکھائی دے رہا ہے۔

جبکہ دوسری جانب امریکی کانگریس کے ارکان پاکستان پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں،خدا نخواستہ پابندیاں لگنے کی صورت میں براہِ راست اثر ملکی معیشت پر پڑے گا،بھوک ننگ میں اضافہ ہو گا،افراتفری پیدا ہو گی جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کے آثار پیدا ہوں گے۔
چودہ اگست کی خوشیاں منا کر اور باجے بجا نے سے اگر فرصت ملی ہو تو سوچیئے گا کہ کیا ہم واقعی ایک آذاد اور خود مختار ملک کے شہری ہیں یا عالمی بینکروں اور کارپوریٹ سیکٹر کی غلامی میں جا چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :