وائرس غیر سیاسی ہوتا ہے

بدھ 2 جون 2021

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

کرونا کو دنیا میں وارد ہوۓ تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ بیت گیا ہے اور اس کی ویکسین دنیا کے کچھ ممالک اور کافی تعداد میں عوام کو مہیا ہونے کے باوجود اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔اگر موجودہ حالات کا ذکر کریں تو بھارت اس صف میں پہلے نمبر پر کھڑا ہے جو کہ امریکہ اور برازیل کو بھی اس معاملے میں پیچھے چھوڑ گیا ہے اور وہی بھارتی جن کی کثیر تعداد اس بات پر فخر کرتی تھی کہ ان کی قوت مدافعت کی وجہ سے کرونا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اسی بھارت میں کرونا کی وجہ سے اور صحت کی سہولیات میں کمی کے باعث دنیا نے متاثرہ افراد کو سڑکوں اور ہسپتالوں میں سسک سسک کے دم توڑتے ہوۓ دیکھا۔

غرض بھارتی وزیراعظم کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑی کہ یہ وہ بحران ہے جس نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

(جاری ہے)


عالمی طاقتوں میں جہاں بھارت کے دوست ممالک نے مدد بھجوائ وہاں پر ہمسایہ حریف ممالک مثلاً چین اور پاکستان نے بھی مدد کی پیشکش کی جس کو بھارت کی جانب سے قبول نہ کیا گیا اور نہ ہی شکریہ ادا کرنے کی زحمت کی گئ۔
اس وبا کے عالم میں مودی حکومت ان ٹویٹر اکاؤنٹس کو بند کرنے کے لیۓ قانونی نوٹس بھجوانے میں مصروف رہی جنہوں نے اس حکومت کی کرونا سے نمٹنے کی ناقص حکمت عملی پر تنقید کی تھی۔


بھارت کے ایک نامور صحافی شیکھر نے ایک تجزیہ کیا جو اس صورت حال پر موزوں اترتا ہے۔ان کے بقول ”ہم اب واقف ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ،جے بولسنارو، نیتن یاہو یا نریندر مودی جیسی طاقتور کہلانےکی شوقین شخصیات میں ایک قدر مشرک ہے کہ ان کی پوری توجہ اپنے ووٹ بنک کو یکجا رکھنے پر مرکوز ہوتی ہے۔
مضبوط لیڈر کی آج کل ایک نشانی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ وہ کبھی اپنی ناکامی یا چھوٹی سے چھوٹی کمزوری کا اعتراف نہیں کرتا بھلے اس کے آس پاس کی دنیا اینٹ اینٹ بکھر رہی ہو۔

اس کے بارے میں تاثر ابھارا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی خطرے کے سامنے پلک نہیں جھپکتا۔ووٹ بنک انہی خوبیوں کی بنا پر اپنے لیڈر پر لٹو رہتا ہے۔ووٹ بنک تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس کے لیڈر کے منہ سے کبھی ایسے فقرے نکلیں گے جیسے کہ، معافی چاہتا ہوں دوستو!میں اس صورتحال کو غلط سمجھا“۔
بھارتی ناقابل تسخیر کہلانے والی قیادت نے اگرچہ اپنے الیکشن کی وجہ سے جلسے جاری رکھے اور کرونا کی بھی پروا نہیں کی جس کی وجہ سے بھارت کے ابتر حالات ساری دنیا نے دیکھے۔

اس کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ  وائرس ووٹر نہیں ہوتا اور وہ کسی خاص جماعت کو نہیں بخشے گا بلکہ جو بھی اس کے آگے اکڑے گا اور جہالت کا بھرپور مظاہرہ کرے گا تو وہ بھی اس کو اپنی لپیٹ میں ضرور لے گا۔
اندھے اعتماد کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ وزیراعظم مودی نے جنوری میں ڈیوس میں ہونے والے عالمی اکنامک فورم کے اجلاس میں فخریہ لہجے میں دنیا کو بتایا تھا کہ، جب کوویڈ شروع ہوا تو دنیا بھارت کے بارے میں پریشان ہونے لگی کوویڈ کا سونامی ٹکرانے والا ہے۔

سات سو سے آٹھ سو ملین بھارتی اس سے متاثر ہوں گے اور بیس لاکھ سے زیادہ اموات ہوں گی مگر بھارت نے نہ صرف ایسا ہونے نہیں دیا بلکہ دنیا کو بھی ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔ہم نے اپنی صلاحیتوں کو بلاتاخیر بڑھایا۔ملک میں دنیا کا سب سے بڑا ویکسین کا پروگرام شروع کیا۔اور اب بھارت اس قابل ہے کہ وہ اس ویکسین کو برآمد کر کے دنیا کی مدد کر سکے۔
اب یہ صورتحال ہے کہ یہ خطہ بری طرح کرونا سے متاثر ہے اور وزیراعظم مودی کی ناقص پالیسیوں اور سیاست کو عوام پر ترجیح دینے کی وجہ سے ہر طرف کرونا کا راج دکھائ دیا۔

اسی مودی کے اندھے ووٹر جو کہتے تھے کہ کرونا نام کی کوئ چیز موجود ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو انہیں نہیں چمٹے گی،وہی لوگ صحت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث سڑکوں اور ہسپتالوں میں مرتے دکھائ دیے۔ان میں سے جو جہالت کے اونچے درجے پر فائز ہیں وہ کرونا کو بھگانے کے لیۓ گاؤ موتر اور گوبر کے استعمال کا مشورہ دینے لگے بلکہ کچھ نے تو گاۓ کے گوبر کو امریکہ برآمد کرنے کی کوشش بھی کی۔

مگر بھلا ہو امریکی کسٹم کا جس نے ائیرپورٹ پر مسافروں کے سامان سے گاۓ کا گوبر برآمد کر کے اسے کوڑے میں پھینکا۔
ابھی اگرچہ حالات پہلے سے کچھ بہتر ہیں مگر انہیں اچھا نہیں کہا جا سکتا۔اس میں عوام کو بھی سوچنا چاہیۓ کہ سیاست دانوں کے مفاد کی بھینٹ چڑھنے کی بجاۓ اپنی صحت کا خودخیال رکھیں اور عوامی اجتماعات سے پرہیز کرتے ہوۓ ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کریں۔وائرس کا سیاست سے کوئ تعلق نہیں اس لیۓ وہ ہر اس شخص پر حملہ کرے گا جو اس کا مذاق اڑاتے ہوۓ اس کو غیر سنجیدہ لیتے ہوۓ اور خود کو افضل سمجھتے ہوۓ اس کے سامنے اکڑے گا چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :