60 سے زائد ممالک میں پھیلے کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کی معیشت کو نقصان پہنچایا وہیں تعلیم کے شعبہ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے، اسی تناظر میں وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو جنوری 2021 تک بند کرنے کی خبریں گردش کررہی ہیں تاہم دوسری جانب آخری مستند اعلان کے مطابق ستمبر سے تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا جائے گا، کرونا وائرس کے باعث تعلیمی تعطل کا متبادل آن لائن نظام تعلیم متعارف کروایا گیا تھا، جس کے تحت طلباء گھر بیٹھے آن لائن کلاسسز لے سکتے ہیں، طلباء کی جانب سے پہلے روز سے ہی آن لائن کلاسسز سے متعلق شکایات کا آغاز ہوا جن میں خاص طور پر انٹرنیٹ اور غیر تسلی بخش سسٹم تھا، کیونکہ اس سے قبل کبھی آن لائن نظام کے تحت تعلیمی سرگرمیاں منعقد نہیں ہوسکیں نہ ہی کبھی موکس سیشن منعقد ہوئے، طلباء و طالبات کی جانب سے یہ شکایت کسی حد درست ہے کیونکہ سرکاری جامعات کے ستر فیصد سے زائد طلباء متوسط اور دور افتادہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جنوبی پنجاب اندرون سندھ کے مختلف اضلاع، کشمیر، بلوچستان اور فاٹا میں کئی مقام پر انٹرنیٹ کی دستیابی اس حد تک نہیں کہ مکمل دھیان سے کلاس لینا ممکن ہو اسکے علاوہ بعض جامعات نے تو آن لائن کلاسسز کا آغاز ہی نہیں کیا، اسی طرح اساتذہ کی بڑی تعداد بھی اس نظام سے ناواقف نظر آتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ بھی موثر میکنزم نہ ہونا ہے، جامعات میں زیر تعلیم سائنس مضامین کے طلباء کیلئے تو بالخصوص موجودہ نظام قابل عمل ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے، اسکے باوجود ایچ ای سی کی جانب سے آن لائن کلاسسز کو جاری رکھنے کی ضد ہے، آن لائن کلاسسز کے بعد طلباء کو مزید پریشانی آن لائن امتحانات دینے کی بھی لاحق ہے، مذکورہ تمام مسائل کے پیش نظر طلباء کی اکثریت امتحانات کے آن لائن طریقہ کار پر سوال اٹھا رہی ہے، تاہم شنید یہ بھی ہے کہ ایم سی کیوز کی بنیاد پر امتحانات منعقد ہوسکتے ہیں، آن لائن کلاسسز کے بعد دوسرا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو جامعات کی جانب سے ہزاروں روپے فیس کی مد میں ادا کرنے کے احکامات بھی جاری ہوچکے ہیں جنمیں ٹیوشن فیس، ہاسٹل ٹرانسپورٹ کی فیس بھی مکمل ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، طلباء کا یہ اعتراض اور مطالبہ مناسب یے کہ گھر بیٹھے غریب والدین لاک ڈاؤن میں کیسے فیس ادا کریں گے جبکہ فیس ادائیگی میں جامعات کی جانب سے کوئی رعایت بھی نہیں برتی جارہی، تیسرا مسئلہ طلباء کو اگلے سمسٹر میں پروموٹ کئے جانے کا ہے جسکا جواز یہ پیش کیا گیا کہ کالجز اور سکولز کی طرز پر جامعات کے طلباء کو بھی سابقہ سی جی پی اے کی بنیاد پر نمبرز دئے جائیں تاہم وہ تعلیمی اداروں کھلنے کی صورت میں فیزیکلی امتحانات دینے پر رضامند ہیں، چوتھا اور اہم مسئلہ طلباء کے مستقبل سے جڑا یعنی تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کھولنے کا ہے، اگر پارکس ، تجارتی مراکز اور شاپنگ سینٹر مخصوص وقت کے لئے کھولے جاسکتے ہیں تو تعلیمی حرج کیونکر قبول کیا جائے، یونیسف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں 1.57 بلین سے زائد طلباء متاثر ہوئے ہیں جبکہ پاکستان میں ہر 10 میں سے 2 افراد کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے اور 80 فیصد طلباء کو وہ ماحول اور لوازمات دستیاب نہیں جو آن لائن نظام تعلیم کیلئے ضروری ہیں، ان تمام حالات میں ایچ ای سی کی جانب سے طلباء کو دو آپشن دئے گئے ہیں ایک یہ کہ وہ اپنے سمسٹر فریز کرلیں جبکہ دوسرا وہ آن لائن سسٹم کا حصہ بنیں، گوکہ سمسٹر فریز کرنے کی صورت میں بھی طالب علم کے چھ ماہ ضائع تصور ہونگے اور گھسے پٹے نظام کے تحت تو پہلے ہی صورت حال گھمبیر ہے، طلباء یقیناً کسی بھی معاشرے کا پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ ہوتے ہیں انہیں حالات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ عام شہریوں سے زیادہ ایس او پیز پر عمل پیرا ہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھا گیا ہے جن سے استفادہ کرکے حکومت بہترین مواقع پیدا کرسکتی ہے، ملک بھر کی طلباء برادری ان مسائل سے دوچار ہے اور اب انہوں نے سڑکوں پر آکر اسکا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے، سوشل میڈیا پر روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر طلبہ اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے نظر آتے ہیں، یقیناً یہ ایک عالمی مسئلہ ہے مگر حکومتوں کا امتحان ایسے اوقات میں ہی نظر آتا ہے اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم جیسے اہم فریضے میں کوئی دیر نہ برتے اور باقی سرگرمیوں کی طرح تعلیمی سرگرمیوں کو بھی ایس او پیز کے تحت شروع کرنے کا اعلان کرے، شعور اور آگاہی کا کام یقیناً جامعات بہتر انداز سے کرسکتی ہیں، انہی تعلیمی اداروں میں آنے والے نوجوان گھروں اور اپنے علاقوں میں جاکر بہتر انداز سے حکومت کی مدد کرسکتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس حد تک اس مسئلہ کو سنجیدگی سے زیر بحث لاتی ہے اور عملدرآمد یقینی بناتی ہے کیونکہ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ قوموں کی ترقی تعلیم کو ترجیح بنا کر ہی ممکن ہے جسکا وعدہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب اقتدار میں آنے سے قبل سینکڑوں بار اپنی تقاریر میں کرچکے ہیں، اب مستقبل کا مورخ ہاتھ میں قلم تھامے اس نازک صورتحال میں حاکم وقت کی دور اندیشی اور تعلیم دوستی کا عملی مظاہرہ دیکھنے کا منتظر ہے�
(جاری ہے)
�
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔