"وقف پراپرٹیز ایکٹ اور چند گزارشات "

منگل 6 اپریل 2021

Amir Ismail

عامر اسماعیل

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے فنائنشل ایکشن ٹاسک فورس کی ہدایات پر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچانے کیلئے ملک کی مذہبی جماعتوں کے گرد گھیرا تنگ کیا ساتھ ہی ساتھ مذہبی مقامات مساجد مدارس اور خانقاہوں سے متعلق ستمبر 2020ء میں قومی اسمبلی میں وقف پراپرٹیز ایکٹ 1979ء میں ترامیم کا بل پیش کیا جسے وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020ء کا نام دیا گیا، اراکین قومی اسمبلی نے اس بل کو منظور کرلیا تو دیگر صوبوں کی اسمبلیوں میں بھی اسے اکثریت سے منظور کرالیا گیا، حیرت انگیز طور پر چھ ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اکثریت تاحال اس بل سے لاعلم ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بل عجلت میں پیش کیا جس میں بظاہر اراکین اسمبلی کا اعتماد اور رضامندی شامل نہیں تاہم سرکار سرکار ہے جو چاہے کرے، وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020ء کے حوالے سے چھ ماہ بعد تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ میں تشویش کا آغاز ہوگیا ہے بالخصوص اہلسنت کے علماء و مشائخ شدید احتجاج کررہے ہیں مگر یہ احتجاج ماضی کی طرح بند کمروں، اجلاسوں کے اعلامیے اور پریس ریلیز کی حد تک ہے کوئی عملی قدم اٹھانے کی حکمت عملی نظر نہیں آرہی، مفتی منیب الرحمن کے مطابق اس بل کی تیاری کا علم ہوا تو غیر رسمی ملاقات میں انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر صاحب سے باضابطہ ملاقات کا وقت مانگا اور گزارش کی کہ علماء کی رائے لیکر بل کو حتمی شکل دی جائے مگر معلومات یہ ہیں کہ سپیکر قومی اسمبلی اور علماء کی کوئی مشاورتی میٹنگ نہیں ہوسکی اس غیر رسمی ملاقات میں مفتی حنیف جالندھری اور مفتی تقی عثمانی بھی موجود تھے گوکہ صرف ایک مکتبہ فکر کو اس بل سے متعلق تشویش نہیں تمام مکاتب فکر اس مسئلہ پر متفق ہیں ویسے موجودہ دور یہ بھی ایک نعمت سے کم نہیں، خیر حکومت فیٹف کی ہدایات پر اسے ہر طور نافذ کرنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان گرے لسٹ سے باہر آئے، حکومت کے نزدیک فیٹف کی تمام شرائط تسلیم نہ کی گئی تو پاکستان کے لئے بین الاقوامی سطح پر مسائل پیدا ہونگے اور پاکستان تنہا رہ جائے گا سو کسی بھی قیمت پر گرے لسٹ سے نکلنا ہوگا کیونکہ خطہ ایشیاء بالخصوص بھارت کی نظریں اسوقت پاکستان کو ڈیفیٹ کرنے پر ہیں جس کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کررہا ہے، وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020ء کی مختلف شکلیں ہیں یہ کہہ لیں کہ اسلام آباد، پنجاب، کے پی کے سندھ، بلوچستان کے لئے الگ الگ بل ڈرافٹ کئے گئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ تشویش کا باعث اسلام آباد کا ایکٹ ہے جس میں سخت پابندیاں اور شرائط شامل کی گئی ہیں، پنجاب حکومت کے شعبہ اوقاف نے تو باقاعدہ عملدرآمد کا آغاز کردیا ہے ایک اخباری اشتہار کے ذریعے ملک بھر میں موجود روحانی علمی اور محبت و عقیدت کے مراکز عظیم صوفیاء کے آستانوں پر روشنی اور محبت پھیلانے والے مشائخ اور سجادگان کو " مینجر" بنا دیا گیا ہے یعنی اب ایک خانقاہ کے سجادہ نشین کا سٹیٹس اکتوبر 2020ء سے ایک " مینجر اوقاف" کا ہے اور یہ ایسے مینیجرز ہونگے جن کی کوئی تنخواہ بھی مقرر نہیں کی گئی، پنجاب وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020ء کی رو سے مساجد مدارس خانقاہوں اور امام بارگاہوں کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے، بل  کے متن میں بالخصوص بیرونی فنڈنگ اور  نذرانوں کی تفصیلات سے آگاہ رکھنے کا سختی سے حکم دیا گیا ہے ، مزارات کی زمین وقف کی تحویل میں ہونگی، مزارات میں کام کرنے والے سٹاف سے لیکر کرسی میز کتنے ہیں تک کا  حساب کتاب رکھا جائے گا، نذرانوں کے ذریعے خدمت کرنے والوں پیر بھائیوں کو بھی محتاط رہنا ہوگا، مزارات پر صدیوں سے جاری لنگر خانوں کا بھی چیک اینڈ بیلنس قائم کیا جائے گا، دربار شریف کا سجادہ نشین اوقاف ایڈمنسٹریٹر کی ماتحت ہوگا جس سے کسی بھی وقت پوچھ تاچھ کی جاسکتی ہے، اسی طرح مساجد کی کمیٹیاں تحلیل ہونگی اور امام و خطیب اوقاف نمائندے کے ماتحت ہونگے، تقریباً یہی احکامات امام بارگاہوں اور مدارس کیلئے ہیں، وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020ء اسلام آباد کا متن زیادہ تشویش ناک ہے جسمیں مقررہ مدت کے اندر مدارس کی رجسٹریشن نہ کرانے کی صورت میں یومیہ ایک لاکھ جرمانہ اور رجسٹریشن سے انکار کی صورت میں ایک سے پانچ سال قید کی سزا اور پچاس لاکھ تک جرمانے عائد ہونگے، سالانہ آمدن اخراجات کا حساب دینا ہوگا، حساب کتاب برابر نہ آنے کی صورت کی تین گناہ رقم ادا کرنا ہوگی، جمعہ کے خطبات کی اجازت لینا ہوگی اور متن پہلے ایڈمنسٹریٹر سے منظور کرانا ہوگا، مذہبی تقریبات اور ثقافتی پروگرامز کی بھی اجازت لینا ہوگا، وقف پراپرٹیز کو کسی بھی وقت فروخت بھی کیا جاسکتا ہے اور حاصل شدہ رقم کسی بھی مقصد کیلئے حکومت استعمال کرسکتی ہے جو سراسر غیر شرعی فعل ہے، مختصراً یہ بل مدینہ کی ریاست کی طرز پر ریاست بنانے کا دعویٰ لیکر حکومت میں آنے والے حکمرانوں نے مذہبی خود مختاری صلب کرنے کیلئے نافذ کیا ہے، فنائنشل ایکشن ٹاسک فورس کا مدعا صرف بیرونی فنڈنگ اگر وہ غیر قانونی ذرائع سے حاصل ہورہی تو اسے روکنا ہے تاہم حکومت دس قدم آگے چل کر اب کئی دہائیوں سے امن گاہوں میں خاموش بیٹھے علماء و مشائخ سے بھی تصادم چاہتی ہے، اگر ایک سادہ رائے کی بات کی جائے تو صوفیاء اور اولیاء عظام سے عقیدت رکھنے والے مکتب فکر کا اس بل سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ عقل سے بالا ہے مکمل وثوق سے یہ عرض کی جارہی ہے کہ یہ نہایت پرامن اور محبت والے لوگ ہیں انکا کام بیرونی فنڈنگ پر پلنا نہیں بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر مخلوق خدا کو دن رات لنگر کھلانا ہے، ان آستانوں پر بلا رنگ و نسل و مذہب روٹی تقسیم کرنے کا کا کام صدیوں سے جاری ہے نہ جانے کیونکر حکومت اپنے لئے مسائل چاہتی ہے، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری صاحب کو اس معاملے میں خود انلوو ہونا چاہیے اور علماء و مشائخ کے خدشات کا ازالہ کرنا چاہیے، اولا فی الفور جرمانوں اور سزاؤں کو ختم کرنا چاہیے تاکہ علماء و مشائخ کی تضحیک کا سلسلہ رک سکے، دوئم وزارت قانون اور وزارت داخلہ کے اراکین سمیت ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جسمیں علماء و مشائخ کو حصہ بنا کر اس بل پر نظر ثانی کی جانی چاہیے، سوئم مینجر کا سٹیٹس ختم کرکے سجادگان کا عظیم سٹیٹس بحال کیا جانا چاہیے، چہارم منی لانڈرنگ سے بابت تحقیقات اور جانچ پڑتال ضرور کی جانی چاہیے تاہم اس معاملے میں بلاوجہ تنگ کرنے سے گریز کیا جائے بیرونی غیر قانونی فنڈنگ والے مدارس کی باز پرس ضروری ہے، حکومت کے عجلت کے فیصلے کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ فی الحال ملک میں صرف ایک طبقہ پرامن اور احتجاج کی سیاست سے کوسوں دور ہے اور وہ علماء و مشائخ ہیں، اطلاعات کے مطابق مشائخ نے مشاورت کا سلسلہ تیز کیا ہے شاید رمضان یا فوری بعد ایک تحریک کا بھی آغاز ہو، اسی سلسلہ کی کڑی میں سابق وزیر مملکت پیر امین الحسنات شاہ صاحب نے ایک اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا، دربار حضرت خواجہ محمد یار فریدی رح کے سجادہ نشین خواجہ غلام قطب الدین فریدی بھی اس بل سے بابت ملاقاتوں اور پریس میں شدید احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ تو عدالت سے رجوع کررہے ہیں کہ شاید وہاں سے انصاف مل جائے ، کے پی کے سے تحریک پاکستان میں کردار ادا کرنے والے آستانے مانکی شریف سے پیرزادہ محمد امین بھی آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے خیبر پختون خواہ کے مشائخ کو آئندہ ہفتے جمع کررہے ہیں، لاہور میں تحفظ ناموس رسالت محاذ اور پاکستان سنی تحریک نے بھی احتجاج کا اعلان کررکھا ہے، اسی طرح دیگر مکاتب فکر کا بھی سخت موقف سامنے آیا ہے جس سے ہر طرف بے یقینی کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے لہذا ارباب اقتدار اس مسئلہ کا مناسب حل علماء و مشائخ کی مشاورت سے طے کریں تاکہ ملک انارکی کے کیفیت سے دوچار نہ ہو اور پاکستان عملاً ریاست مدینہ کی تصویر پیش کرے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :