مسئلہ افغانستان، دو ملاقاتیں، دو بیانیے

منگل 5 اکتوبر 2021

Amir Ismail

عامر اسماعیل

صاحبزادہ حامد رضا آج کل قرآن بورڈ پنجاب کے چیئرمین ہیں، بین الاقوامی امور، ممالک کے ایک دوسرے سے تعلقات بالخصوص پاکستان کے بین الاقوامی سطح پر معاملات سے وہ ہمیشہ اپڈیٹ رہتے ہیں،  بین الاقوامی جامعات سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں مذہبی سیاست کرنا قدرے اچنبھے کی بات ہے مگر وہ یہ ڈیوٹی بھی بخوبی سرانجام دے رہے ہیں، ملکی سطح پر سنی بریلوی مکتبہ فکر میں جب سیاسی مذہبی معاملات میں ڈیڈلاک پیدا ہو تو انہیں یاد کیا جاتا ہے، وہ حاجی فضل کریم مرحوم سابق رکن قومی اسمبلی کے صاحبزادے ہیں، وہی حاجی فضل کریم جنہوں نے پہلی بار قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کی اور ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو فساد قرار دیا، قومی اسمبلی کے ایوان سے یہ پہلی توانا آواز تھی جس کے بعد چراغ سے چراغ جلنے کا کام ہوا اور یوں افواج پاکستان نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے ملک دشمنوں اور ریاست کے باغیوں کو ایک ایک کرکے جہنم واصل کرنا شروع کیا، حاجی فضل کریم صاحب نے اسوقت اصولی موقف اپنایا کہ یہ کون سا اسلام ہے کہ طالبان معصوم بچوں عورتوں اور مردوں کو ذبح کرکے نافذ کرنا چاہتے ہیں، ہمارے فوجی جوانوں کے سروں سے فٹ بال بناتے ہیں، مساجد مزارات اور مقدس مقامات پر بمباری کرتے ہیں یہ قطعی اسلام نہیں لہذا طالبانائزیشن کا بیانیہ مسترد کرتے ہیں، افغان طالبان کی حکومت کے بعد ایک بار پھر یہ موضوع زبان زد خاص و عام ہے، گزشتہ دنوں صاحبزادہ حامد رضا سے انکے دفتر میں افغانستان کی صورتحال پر طویل گفت و شنید ہوئی، صاحبزادہ حامد رضا کا موقف ہے کہ افغانستان کے مسئلہ پر شادیانے نہ بجائے جائیں، یہ قبل از وقت ہے، وہ کھل کر اظہار کرتے ہیں کہ افغان طالبان کسی صورت پاکستانی طالبان سے جدا موقف نہیں رکھتے دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، پنج شیر فتح پر انکا دلچسپ تبصرہ تھا کہ یہ دوبارہ طالبان کے ہاتھ سے جائے گا، انہوں نے حالیہ دنوں پاکستانی پرچم کی توہین پر کہا کہ ہم جن کی فتح کا جشن منا رہے ہیں وہ ہمارے پرچم تک کی تضحیک کرنے سے گریز نہیں کرتے، وقت ثابت کرے گا یہ عالمی گریٹ تھی جسمیں ممالک کا مفاد وابستہ تھا اگرچہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ریاست کو اپنی پالیسی پر گامزن رہنا چاہیے جو بہتر سمجھے کرے،
اسی طرح ہمارے مشترکہ محترم بھائی اور تحریک پاکستان کے وقت قائداعظم کے ساتھیوں میں شمار ہونے والے پیر صاحب آف مانکی شریف کے پوتے پیرزادہ محمد امین سے بھی اسی موضوع پر چند دن قبل اسلام آباد میں ملاقات میں سیر حاصل گفتگو ہوئی، پیرزادہ محمد امین بھی نوجوان مذہبی لیڈر کے طور پر اپنی شناخت بناچکے ہیں چونکہ انکا خانوادہ تحریک پاکستان کے وقت سے اپنی قربانیاں اور خدمات ملک و ملت کے لئے سرانجام دے رہا ہے سو وہ بھی بزرگوں کے طریق پر عمل پیرا ہیں، پیرزادہ صاحب بھی اقوام متحدہ میں بطور نوجوان لیڈر کچھ عرصہ گزار چکے ہیں اس واسطے وہ بھی بین الاقوامی موضوعات پر اپنی ایک رائے رکھتے ہیں، انکا موقف ہے کہ افغان طالبان کی جیت عالم اسلام کی جیت ہے، افغان طالبان نے بیس سال سپر پاور کے ساتھ بے سرو سامانی کے عالم میں جنگ لڑی، امریکن اسلحہ کھربوں ڈالرز اور کئی ممالک کی حمایت کے بعد یہ شکست کوئی عام شکست نہیں ہے، بیس سال جنگ کے بعد عالم اسلام کی لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کا ضعم مٹی میں مل گیا، انکی رائے ہے کہ تمام مسلمانوں کو افغان طالبان کی بطور مسلمان حمایت جاری رکھنی چاہیے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر واضح موقف رکھتے ہیں کہ یہ دہشت گرد تنظیم ہے، انکا کہنا تھا کہ افغان طالبان کو پاکستانی طالبان سے جوڑنا مناسب نہیں ہے، افغان طالبان کے کنٹرول سے اب تک کوئی ایسا غیر انسانی واقعہ سامنے نہیں آیا جو ٹی ٹی پی ہمیشہ سے کرتی آئی ہے،دونوں احباب کی رائے کا احترام ہے مگر بطور طالبعلم میرے لئے دنوں مجلسیں انتہائی سیر حاصل گفتگو کی حامل تھی، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا عندیہ اس شرط پر دیا ہے کہ اگر وہ ریاست مخالف کارروائیاں چھوڑ دیں ہتھیار ڈال دیں تو انہیں عام شہریوں کی طرح رہنے کا حق ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست ابھی بھی سپیس دے رہی ہے کہ امن کے قیام کے لئے کوئی آپشن باقی نہ رکھا جائے، افغانستان کے مسئلے پر بھی ریاست نے پھونک پھونک کر قدم رکھے ہیں بین الاقوامی ممالک کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں یقیناً یہ بڑا چیلنج تھا جس سے خطہ کے حالات بالخصوص جڑے تھے، طالبان امریکہ مذاکرات سے لیکر کابل میں قیام امن تک پاکستان کا کردار غیر جانبدار رہا، خطہ میں ایک نئی حکومت کے طور پر فی الحال انہیں کئی چیلنجز ہیں مگر وہ شاید اس بار ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں عالمی طاقتیں تسلیم کریں اور وہ بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق ملکی نظام کی باگ ڈور چلائیں، پاکستان نے ہمیشہ کی طرح دنیا کو باور کروایا کہ ہم کہیں بھی جنگ کے حامی نہیں ہمارا موقف درست ثابت ہوا کہ مسلح جدوجہد سالوں بعد بھی مذاکرات کے بعد اختتام پذیر ہوتی ہے لہذا ہمسایہ ملک بھارت کو بھی مان لینا چاہیئے کہ کشمیر ایک سیاسی بیانیہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جسے آج یا کل مسلح یا پرامن طریقے سے آزاد ہونا ہوگا یہ ہمارا ضبط ہے کہ نصف صدی سے زائد ظلم و ستم پر ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کیا مگر یہ ریاست کی کمزوری نہیں بلکہ آخری حد تک موقعہ مان لیا جائے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :