ماحولیاتی آلودگی اور نجات کا نسخہ

جمعہ 26 نومبر 2021

Amir Ismail

عامر اسماعیل

ماحولیات کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق صاف ستھری فضا اور باغات کا شہر لاہور اس وقت دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے، رپورٹس کے مطابق لاہور کا ائیر کوالٹی انڈکس خطرناک ترین سطح یعنی 345 تک پہنچ چکا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو اس وقت جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اس میں بنیادی ماحولیاتی آلودگی ہے یہ چیلنج معاشی چیلنج سے بڑا بن چکا ہے، ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا شدہ بیماریاں روزانہ انسانی صحت پر اثر انداز ہورہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ کرونا کی شدت میں کمی مگر ڈینگی نے اپنے پنجے گاڑھ لئے ہیں جس سے صورت حال مزید گھمبیر ہورہی ہے، پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کا بڑا سبب سموگ کو قرار دیا جارہا ہے، بین الاقوامی ادارے نیشنل جیو گرافی کے مطابق سموگ فضائی آلودگی ہے جس سے دیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے یہ بیک وقت آنکھوں اور سانس لینے کے عمل کو متاثر کرتی ہے، ہمارے ہاں گزشتہ سات آٹھ برس سے سموگ کا عمل ہر سال نومبر دسمبر میں شدید دیکھنے میں آتا ہے مگر تاحال کوئی مستقل حل تلاش کرنے کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے، دلچسپ طور پر پنجاب کے وزیر ماحولیات باؤ رضوان تو اسے سموگ تسلیم ہی نہیں کرتے انکا کہنا ہے کہ ائیر کوالٹی انڈکس پی ایم 2.5 چوبیس گھنٹے سے پہلے حتمی نہیں ہو سکتا جبکہ ہمارے ہاں اسے روزانہ صبح کے وقت طے کر لیا جاتا ہے، اس وقت ائیر کوالٹی انڈکس جو اوپر جا رہا ہے اس میں گرد کے ذرات ہیں آلودگی اتنی زیادہ نہیں ہے، انہوں نے میڈیا سے درخواست کی وہ محکمہ کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات اور اعداد و شمار رپورٹ کرے، اگر وزیر ماحولیات کی بات کو ایک لمحے تسلیم کرلیا جائے تو کیا گرد و غبار کے ذرات انسانی صحت کے لئے جان لیوا نہیں ہیں جس کا خاتمہ بھی ضروری ہے،سموگ کی شدت میں اضافہ کے باعث پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں کو تین دن بند کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں، کم عمر بچوں کو سموگ زیادہ تیزی سے متاثر کرسکتا ہے لہذا یہ فیصلہ درست مگر اس کے تدارک کے لئے کوئی فنڈز نہیں ہیں محض احتیاطی تدابیر کے لئے کوششیں جاری ہیں، دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے چلان اور تعمیراتی مقامات پر پانی کا چھڑکاؤ اس وقت پنجاب حکومت کے پاس اسکا علاج ہیں، اس بابت پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے استاد اور ماہر ماحولیات پروفیسر ڈاکٹر منور صابر نے سموگ اور فضائی آلودگی کے تدارک کے لئے " مصنوعی بارش" کے تجربے کا اعلان کررکھا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ سمیت کسی حکومتی ذمہ دار نے ان سے رابطہ کرکے انکی خدمات لینے اور انہیں شاباش دینے کی زحمت نہیں کی، ڈاکٹر منور صابر کے انکشافات چونکا دینے والے ہیں انکا کہنا ہے کہ اگر لاہور اسی طرح آلودگی کا انڈکس برقرار رکھے گا تو خدشہ ہے کہ شہر میں انسانی وجود مزید آٹھ دس برس بعد ممکن نہ ہو، ان کی تحقیقات کے مطابق لاہور میں سموگ اور آلودگی کے ذریعے اس وقت ہر سانس لینے والا شہری اوسطاً بیس سگریٹ کے برابر دھواں اپنے جسم میں داخل کررہا ہے، سموگ کے تدارک کے لئے مصنوعی بارش کے حوالے سے انہوں نے اپنا پہلا تجربہ پنجاب یونیورسٹی کے خانسپور میں قائم کیمپس میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں پہلی مرتبہ ایک کلومیٹر کی حدود میں مصنوعی بارش کا تجربہ مکمل کیا جائے گا، مصنوعی بارش کے اس تجرباتی عمل میں وہ اپنی جیب سے ڈیڑھ سے دو لاکھ کا خرچ کررہے ہیں، سوچ کا مقام یہ ہے کہ کتنے گمنام ڈاکٹر منور صابر اس ملک کی ترقی استحکام میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور حکمرانوں کو کانوں کان خبر نہیں ہے یہی پنجاب یونیورسٹی ہے جس کے قابل اساتذہ مختلف شعبوں میں اس سے قبل بھی بے شمار تجربات کے ذریعے پاکستان کا نام روشن کرچکے ہیں اسی یونیورسٹی کے ایک قابل استاد کے ساتھ یہ سلوک محض اتفاق نہیں ہوسکتا، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہے کہ ڈینگی سے چھٹکارا بھی آسمانی بارش کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ ماہرین کے مطابق اس کی افزائش کا عمل سرد موسم میں زیادہ ہے لہذا کسی بھی طرح بیماریوں کا ایک علاج آسمانی یا مصنوعی بارش ہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے محترم رئیس الجامعہ اس کام کی اونر شپ لیں پنجاب یونیورسٹی کے ٹیگ کے ساتھ حکومت کو قائل کریں کہ وہ ایک موقع ضرور فراہم کرے، جامعات تجرباتی عمل سے ہی ترقی کے ذینے طے کرتی ہیں لہذا کوئی حرج نہیں کہ اس عمل کی تائید کی جائے، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈاکٹر منور صابر کے اس تجرباتی عمل کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور انہیں مکمل تعاون اور سہولیات فراہم کرنی چاہیے، ڈاکٹر منور صابر سمیت ماحولیات کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جانی چاہیے جسے ٹاسک دیا جائے کہ وہ اس پر اپنا ہوم ورک کریں اور آلودگی کے تدارک کے لئے میکنزم تشکیل دیں، عین ممکن  ہے یہی مصنوعی بارش فی الوقت انسانی جانوں کو بچانے کا سبب بن جائے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :