پی پی پی کا ویٹو

جمعہ 19 مارچ 2021

Amir Ismail

عامر اسماعیل

بدھ کے روز سینیٹ انتخابات کے بعد ملکی سیاست میں پیدا ہونی والی صورتحال کے تناظر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اہم اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ انتخابات میں سابق وزیراعظم ، سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی کی ہار اور آئندہ کے لائحہ عمل  پر کھل کر گفت و شنید کی ، یہ اجلاس اس لحاظ سے بھی خاص تناظر میں دیکھا جارہا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے بعد یہ پی ڈی ایم کی باضابطہ پہلی بیٹھک تھی، پی ڈی ایم کے اس اجلاس میں شریک چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی آصف علی زرداری خاصہ تلخی میں نظر آئے، استعفوں کے آپشنز کو آصف علی زرداری نے نواز شریف کے وطن واپس آنے سے مشروط کردیا گوکہ وہ جمہوریت بہترین انتقام کے سالوں پرانے بیانیہ پر قائم ہیں، آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کسی صورت بہترین اتحادی کا کردار ادا نہیں کرسکتے، سندھ میں حکومت قائم رکھنے کیلئے وہ استعفوں کی آپشن کو کبھی آخری تک استعمال نہیں کرینگے، پیپلزپارٹی تاریخ سے سبق سیکھ چکی ہے، 1970ء کے بعد سے پیپلز پارٹی حکومت قائم ہونے کے بعد حکومت سے الگ ہونے اور انتخابات میں حصہ نہ لینے جیسا فیصلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، انہیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس کوئی اقتدار نہیں جسے وہ پی ڈی ایم پر قربان کرکے حکومت کو ٹف ٹائم دے سکیں، انہیں اپنے پرانے حریف کے کندھوں کو استعمال کرنا ہوگا، اسی طرح مولانا کے پاس بھی کوئی خاطر خواہ سیٹیں نہیں ہیں جن سے استعفوں کی صورت میں انہیں کوئی بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا،لہٰذا اپوزیشن جماعتوں میں واحد پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو سندھ میں حکومت قائم کئے ہوئے ہے، دلچسپ بات یہ کہ آصف علی زرداری بھی یوسف رضا گیلانی کی ہار کو مسلم لیگ ن کے اراکین کی ساز باز سے منسوب کرتے ہیں جس کی ایک جھلک پی ڈی ایم اجلاس میں انکے تلخ روہے سے محسوس ہوئی، سابق صدر نے استعفوں کے آپشن کو نواز شریف کی وطن واپسی پر مشروط کرکے خود مسلم لیگ اور پی ڈی ایم کو امتحان میں ڈال دیا ہے، مسلم لیگ ن اس مطالبے پر تشویش کا اظہار کررہی ہے، نائب صدر مریم نواز کے مطابق یہ مطالبہ موجودہ حالات میں درست نہیں، سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن بھی آصف علی زرداری کی نئی حکمت عملی سے پریشان نظر آتے ہیں، پی ڈی ایم اجلاس کے بعد وہ صرف لانگ مارچ ملتوی کا اعلان کرکے  پریس کانفرنس سے رخصت ہوگئے، مولانا کا کہنا ہے کہ یہ کہیں طے نہیں ہوا تھا کہ استعفے آخری آپشن ہیں، پیپلزپارٹی کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہوگی، آصف علی زرداری کی اس شرط کے بعد سیاسی پنڈت پی ڈی ایم کو ختم ہوتا بتا رہے ہیں، یہ بات درست ہے کہ اس اتحاد میں شامل جماعتیں ماضی میں ایک دوسرے سے متعلق جو کہا کرتی تھیں وہی انکے گلے کی ہڈی بنا ہے،  اپنے اپنے مفاد کی خاطر اس اتحاد نے گلاس توڑ کر بارہ آنے دے دئے ہیں، پیپلزپارٹی چئیرمین سینیٹ چاہتی تھی ناکام ہوئی، مولانا ڈپٹی چیئرمین شپ حاصل نہ کرسکے، مسلم لیگ ن تو پہلے ہی سبکو پارلیمنٹ سے باہر دیکھنا چاہتی ہے،لہٰذا اب تحریک عدم اعتماد کا ایک آپشن بھی اس اتحاد کی ناکامی کے بعد ختم ہوگیا ہے، پنجاب کے اندر بھی تحریک عدم اعتماد کیلئے پی ڈی ایم کو مشترکہ جدوجہد کی ضرورت تھی تاہم اب وہ بھی اپوزیشن اتحاد کی صورت حال کے بعد ناکام ہی تصور ہوگی، اب اپوزیشن جماعتوں کو بقیہ دو سالوں میں ایک بار پھر اپنی اپنی سیاست چمکانا ہوگی، کہیں پی ڈی ایم ناکامی کے تذکروں کے ذریعے ایک دوسرے پر الزام تراشی ہوگی تو کہیں پرانے قصے سہارا بنیں گے یوں تماشا صرف عوام بنتی رہے گی، حکومت بھی اپوزیشن اتحاد کی اس صورت حال کے بعد ایک پرسکون ماحول میں نظر آتی ہے، اپنے امیدوار نہ ہونے کی صورت میں بھی حکومت کیلئے سینیٹ انتخابات ایک چیلنج تھے جس میں بہرحال وہ کامیاب ہوئے اب روز روز پی ڈی ایم کے خوف سے باہر نکل کر وزیراعظم عمران خان عوام کا بھی سوچنا شروع کریں گے، امید ہے کہ انکی تقاریر میں پی ڈی ایم کی جگہ عوامی مسائل لینگے تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے، وگرنہ عوام پاکستان باشعور ہوچکے ہیں کچھ عرصہ بعد انتخابات ہیں جسمیں ایک بار پھر تحریک انصاف کو دوسری باری، ن لیگ کو چوتھی اور پیپلزپارٹی کو بھی چوتھی باری دینے کا فیصلہ ہوگا کیونکہ ان نجات دہندوں کے علاوہ کوئی ہے بھی تو نہیں، آخر میں ایک پرانا لطیفہ جسے ایک دوست نے یوسف رضا گیلانی کی ہار سے منسوب کیا کہ کسی ملک کی حکومت نے اعلان کیا کہ جس کے دس بچے ہونگے اسے حکومت ایک بھاری بھرکم انعام سے نوازے گی یہ اعلان سنتے ہی ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہمارے سات بچے ہیں، آج میں تمہیں ایک راز بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک شادی اور کررکھی ہے جسکا تم سے کبھی تذکرہ نہیں کیا اس بیوی سے میرے تین بچے ہیں، لہٰذا کل ملا کر دس بچے ہوگئے اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو میں وہ بچے لے آؤں تاکہ حکومت کے انعامات مل سکیں، بیوی نے خاوند کی بات سن کر اسے اجازت دے دی، خاوند جب ان تین بچوں کو لیکر گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ان سات بچوں میں صرف تین بچے موجود ہیں خاوند نے بیوی سے پوچھا کہ باقی چار بچے کدھر ہیں؟ جس پر بیوی نے کہا کہ یہ اعلان تمہارے علاوہ بھی کسی سن لیا تھا جس کے تھے وہ بھی آکر اپنے بچے لے گئے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :