
ایچ ای سی کا بحران - پس منظر پیش منظر
ہفتہ 10 اپریل 2021

عامر اسماعیل
ایچ ای سی سے پہلے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن تھاجو پاکستان کی یونیورسٹیز کا مانیٹرنگ ادارہ تھا لیکن غیر موثر تھا۔
(جاری ہے)
ایچ ای سی نے ابتداء میں ہی اس پر کام شروع کر دیا تھا جس کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے تھے۔
لیکن آمریت کا دور ختم ہوتے ہی 2008ء میں جمہوریت کے دور کے آغاز میں ہی جمہور دُشمن پالیسی کا آغاز ہوا اور صرف یہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ حکومتی دُشمنی کا اُس وقت کھل کا اظہار ہوا جب ڈاکٹر عطاء الرحمن نے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔اس استعفیٰ کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یورپ، امریکہ، آسٹریلیا میں پی ایچ ڈی کے لیے جانے والے سکالرز کے وظائف کو حکومت نے بند کر دیا جس پر احتجاج کرتے ہوئے عطاء الرحمن نے استعفیٰ دے دیا لیکن حکومت نے ان کے استعفیٰ پر بھی کوئی دباؤ قبول نہ کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد کے شہری ڈاکٹر جاوید لغاری کو چیئرمین لگا دیا۔ وہ جیالے تھے اور بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے کیونکہ وہ محترمہ کے مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی بھی رہ چکے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایچ ای سی کا نیا چیئرمین پی پی پی کی جانب سے سینیٹر بھی رہے۔آمریت کے بعد جمہوریت کا دور شروع ہوا تو ایچ ای سی کے مسائل بڑھنے لگے اور اسی جمہوری دور میں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ متعدد پارلیمنٹرین کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں اور ان ڈگریوں کی تصدیق اب ایچ ای سی کرے گا یعنی ایچ ای سی سے کلیئرنس ملے گی تو ڈگری اصل تصور ہوگی۔
جمہوری نمائندوں کی ایک ایک کر کے جعلی ڈگریاں پکڑی گئیں حتیٰ کہ سابق وزیر تعلیم کی بھی جعلی ڈگری پکڑی گئی۔ایک طرف جمہوری نمائندوں کی جعلسازی پر جگ ہنسائی ہوئی تو دوسری جانب اچھی خبر آئی کہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی درجہ بندی میں پاکستان کا شمار دُنیا کی بہترین جامعات میں ہوا۔ڈاکٹر جاوید لغاری کا دور تمام ہوا تو ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مختار احمد کو چیئرمین تعینات کر دیا گیا۔ اُن کی تعیناتی کے بعد ایچ ای سی میں اندرونی طور پر اختلافات ہونے لگے حتیٰ کہ اُن پر یہ الزام بھی عائد ہوا کہ چیئرمین کی ڈگری مشکوک ہے۔ جیسے جاوید لغاری کی تعیناتی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تھی ایسے ہی ڈاکٹر مختار احمد کو بھی حکمران جماعت کی آشیر باد کی بنیاد پر یہ عہدہ مل گیا۔ایچ ای سی کو اب اُس وقت بڑا جھٹکا لگا جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2010ء میں آئین کی 18 ویں ترمیم میں 280آرٹیکل میں سے 102میں تبدیلی کر دی گئی اور نئے ادارے یعنی کمیشن برائے سٹینڈرڈز ان ہائر ایجوکیشن کاقیام عمل میں لانے کی منظوری بھی تھی جو سات سال بعد بھی روبہ عمل نہ ہوسکی اس کی بہت سی قانونی پیچیدگیاں ہیں جس پر سپریم کورٹ میں مختلف کیسز بھی دائر کیے گئے۔
اٹھارویں ترمیم میں جب ایچ ای سی کو ختم کرنے کا معاملہ آیا اور اعلیٰ کو صوبوں کے سُپرد کر دیا گیا تو یہ ایک نیا بحران تھا۔ ایچ ای سی کے فنڈز پر کٹوتی لگی، ایچ ای سی کے فنڈز روکے گئے، پی ایچ ڈی پروگرام متاثر ہوا، سکالر شپس رُکی گویا آٹھ سال میں ایچ ای سی کی گئی محنت کو زیرو کرنے کا حملہ کر دیا گیا۔ غالبا جمہوری حکمرانوں نے اپنی جعلی ڈگریوں کا بدلہ ایچ ای سی سے یوں لے لیا۔
معاملہ یہاں رُکا نہیں بلکہ اس کے خلاف ایچ ای سی کے بانی چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن سب سے پہلے عدالت گئے اور اس آئینی ترمیم کو چیلنج کر دیا۔ عدالت نے اپنے عبوری حکم نامہ میں ایچ ای سی کے حق میں فیصلہ سنایا اور صوبوں میں قائم کیے گئے ہائر ایجوکیشن کمیشنز کو بھی کالعدم قرار دیا گیا لیکن اس فیصلے پر مکمل طور پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا۔اب نیا تنازعہ جنم لینے لگا کہ ہائر ایجوکیشن کون کنٹرول کرے گا؟ وفاق یا پھر صوبے؟ اسی کمشکش میں کئی سال گزر گئے تبدیلی سرکار میں بھی یہ معاملہ حل نہ ہوسکا چنانچہ ہماری اعلیٰ تعلیم اب بھی اُس کشتی کی طرح ہے جو سمندر کی لہروں کی مرہون منت پر ہوتی ہے۔پنجاب اور سندھ نے اعلی تعلیم کے فروغ اور صو بوں میں اعلی تعلیمی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے صو بائی ہائیر ایجو کیشن کا قیام کیا۔ مگر صو بائی ہائیر ایجو کیشن کے قیام کے بعد اختیارات کی منتقلی میں وفاقی ایچ ای سی کا 2002ء کا آرڈیننس گلے کی ہڈی بن چکا ہے ، اس آرڈیننس کے مطابق وفاقی ہائیر ایجو کیشن جامعات کے قیام ، وائس چانسلرز کی تقرری اور مالیاتی امور کی خو د نگرانی کرے گا۔
اختیارات کی یہ جنگ اب ملک کی اعلیٰ تعلیم میں ساکھ کو متاثر کر رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر تباہی کی طرف لے کر جاری ہے۔ دو ہزار آٹھ سے پہلے جب پاکستان کی یونیورسٹیز کا شمار دُنیا کی بہترین یونیورسٹیز کی فہرست میں ہونے لگا تو آج نو سال بعد جب یہی ادارہ دوبارہ درجہ بندی کی فہرست جاری کرتا ہے تو ایک ہزار یونیورسٹیز میں پاکستان کی جامعات کی تعداد 7 سے کم ہوکر 4 ہو جاتی ہے۔پاکستان جو اعلیٰ تعلیم کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتی دور میں پھر مسلم لیگ نواز کے دور میں ترقی کا یہ پیہہ اُلٹا گھومنے لگا ہے۔گزشتہ برس جب یونیورسٹیز کی عالمی درجہ بندی کی فہرست سامنے آئی تو پہلی چھ سو یونیورسٹیز میں ایشیاء میں پاکستان کی کوئی جامعہ شامل نہیں تھی، درجہ بندی میں اکیڈمک اور ملازمین کی شہرت ،فیکلٹی طالب علم کی شرح ،بین الاقوامی طلباء کی تعداداور بین الاقوامی فیکلٹی کی موجودگی سمیت تحقیقی موادکی اشاعت کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے متعدد بین الاقوامی ادارے مایوس کن رپورٹ پیش کرتے رہے ہیں جیسا کہ گلوبل کمپیٹیٹونس رپورٹ کے مطابق پاکستان اعلیٰ تعلیم کے میدان میں 140میں سے 124ویں نمبر پرہے جبکہ ہمسایہ ممالک بھارت 90،چین28 اور ایران 69 نمبر پر ہیں ۔اب یہ انتہائی تشویش ناک ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ 90 ارب سے تجاوز کر گیا ہے اور ملک میں جامعات کی تعداد بڑھ کر 183 ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ برسوں میں ایچ ای سی اپنا مکمل بجٹ حاصل کرپائی نہ اس بجٹ کو مناسب جگہ استعمال کرپائی، اب پاکستان کو اس تعلیمی کشمکش کی حالت سے کیسے نکالا جائے؟
ایک بات تو طے ہے کہ اگر حکومت تعلیم سے متعلق سنجیدہ ہے تو پھر ادارہ جاتی اپروچ کو واضح کرنا ہوگا کہ کس کے پاس کیا اختیار ہوگا وگرنہ اختیارات کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ پاکستان کو اگر عالمی جامعات کے مقابلے پر لانا ہے تو ہر سال دو ہزار طلباء کو بیرون ممالک دنیا کی بہترین جامعات میں تحقیق کیلئے بھیجا جانا چاہیے اور واپس وطن لوٹنے پر انکے شعبہ جات سے متعلق انہیں روزگار فراہم کیا جانا چاہیئے ۔
ملک کی چند مخصوص اور اہم قابل ذکر جامعات میں تحقیقی مراکز بین الاقوامی طرز پر بنانا ہونگے جہاں تحقیق کے کلچر کو عام کرنے میں مدد مل سکے اور سینکڑوں طلباء تحقیقی کام پر مگن رہیں ۔ جبکہ قومی سطح پر تحقیق کیلئے بھی مراکز قائم ہونے چاہئے جن پر اہم سہولیات بہم موجود ہوں تاکہ بین الاقوامی سطح پر سامنے آنے کیلئے بین الاقوامی طرز پر تحقیقی مراکز سے اس کمی کو بھی پورا کیا جاسکے جسکا سالانہ بجٹ ایک ارب سے زائد مختص کیا جائے۔ارباب اقتدار کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان میں اعلی تعلیم کے حصول کیلئے بیرون ملک سے طلباء کب آئیں گے کب ہمیں انکی جامعات میں تحقیق کے طلباء بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوگی انہیں سوچنا ہوگا کیونکہ تعلیم ہی قوموں کی ترقی کا ضامن ہو اکرتی ہے ۔ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم اس شعبہ میں ملکی مفاد اور بقا کی خاطر سیاست نہیں کریں گے اور موجودہ مجوزہ قوانین کے ذریعے اس اعلی تعلیم کمیشن کو سیاست کی نظر نہیں کرینگے بلکہ اسکی خود مختاری قائم رکھی جائے گی کیونکہ محفوظ ایچ ای سی کے ذریعے تعلیم اور پاکستان دونوں محفوظ کئے جاسکتے ہیں.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عامر اسماعیل کے کالمز
-
ماحولیاتی آلودگی اور نجات کا نسخہ
جمعہ 26 نومبر 2021
-
"تعلیم کا مقدمہ"
جمعہ 19 نومبر 2021
-
مسئلہ افغانستان، دو ملاقاتیں، دو بیانیے
منگل 5 اکتوبر 2021
-
ایچ ای سی کا بحران - پس منظر پیش منظر
ہفتہ 10 اپریل 2021
-
"وقف پراپرٹیز ایکٹ اور چند گزارشات "
منگل 6 اپریل 2021
-
پی پی پی کا ویٹو
جمعہ 19 مارچ 2021
-
ویلنٹائن ڈے اور ہماری روایات
ہفتہ 13 فروری 2021
-
”طلبہ یونین کی بحالی اور نیا پاکستان“
منگل 9 فروری 2021
عامر اسماعیل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.