"تعلیم کا مقدمہ"

جمعہ 19 نومبر 2021

Amir Ismail

عامر اسماعیل

قائداعظم محمد علی جناح رح کا یہ فرمان "تعلیم پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے دنیا اتنی تیزی سے ترقی کررہی ہے کہ مطلوبہ نتائج میں پیشرفت کے بغیر نہ صرف ہم اقوام عالم سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا نام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے" ہماری درسی کتب کی صفحہ اول پر درج ہوتا ہے شاید اس کا مقصد دعوت فکر ہے کہ ملک کے  معاشی سماجی سیاسی استحکام کے لئے تعلیم ہی وہ واحد حل ہے جس میں سرمایہ کاری کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں یہ بحث اب عملی جامہ پہن چکی ہے کہ جن قوموں نے تعلیم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے قوموں کی بنیاد رکھی وہ ہر محاذ سمیت داخلی اور خارجی محاذ میں بھی کامیاب ہوگئے، ہمارے ہاں حکومتوں کے لئے کبھی بھی تعلیم  پہلی ترجیح  نہیں رہی ، پرائمری سے لیکر اعلی تعلیم تک اپنے اپنے اور مختلف نوعیت کے مسائل جوں کے توں ہیں، مثلاً یہ بحث طویل عرصے سے جاری ہے کہ ملک میں دو کڑوڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں، جامعات کے لئے فنڈز نہیں ہیں، معیار تعلیم بہتر نہیں ہورہا، تحقیقی کلچر کا کوئی مناسب بندوبست نہیں، اساتذہ و طلباء کے مسائل، ان بنیادی مسائل کے حل کی برسوں سے تلاش جاری ہے مگر کوئی پیشرفت نہیں ہورہی جس میں بظاہر ایک فریق حکومت ہی مکمل قصور وار نہیں ہے ہماری جامعات اور تعلیمی ادارے بھی کہیں نہ کہیں براہ راست زمہ دار ہیں، گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم کے ایک اجلاس میں اس انکشاف نے حیرت سے مبتلا کردیا کہ سب اچھا اور بہترین جامعات کا ٹائٹل لئے ملک کی 32بڑی جامعات کا معیار تعلیم مسلسل گرر رہا ہے، کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی کی جانب سے جامعات کا معیار تعلیم جانچنے کے لئے کمیٹی بنائی گئی تھی، ایچ ای سی حکام نے دوران بریفنگ بتایا کہ معیار تعلیم تسلی بخش نہ ہونے والی جامعات میں سے 10 کا تعلق حکمران جماعت کے صوبے کے پی کے، 9 کا تعلق بھی حکمران جماعت کے صوبے پنجاب، 5 کا سندھ، 2 کا تعلق آزاد کشمیر اور ایک کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے،ایچ ای سی حکام  کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے جامعات کو ایک سوالنامہ مہیا کرتے ہیں جسے کے بعد پچاس سکور سے کم والی جامعات کا معیار تعلیم غیر تسلی بخش قرار دیا جاتا ہے، ایچ ای سی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے اس عمل کے ذریعے کم از کم سرکاری جامعات کے بارے میں رائے اور سب اچھا کی رپورٹ دینے والوں کی کارکردگی کو بے نقاب کیا، اس غیر تسلی بخش جامعات کی فہرست میں ملک کی بڑی جامعات اور بڑے نام بھی شامل ہیں، یہ ایک رخ جامعات کی کارکردگی کا ہے دوسرا رخ انتہائی تکلیف دہ ہے کہ غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ کیا ہے ہماری بڑی جامعات کے علاوہ بلوچستان گلگت کے پی کے اور سندھ کی کئی جامعات کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جاتا ہے، نئی جامعات یا کچھ عرصہ سے قائم جامعات میں مناسب اور زیادہ فنڈز توجہ کی بجائے انہیں بعض اوقات تحقیقات اور تجربہ گاہوں کے لئے فنڈز بھی نہیں ہوتے اساتذہ اور ملازمین کئی ماہ تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں، ڈویلپمنٹ فنڈز سالوں بعد منظور اور فراہم ہوتے ہیں، افسوس تو یہ بھی کہ تعلیم کا یہ مقدمہ کہاں بیان کیا جائے بائیس کڑوڑ کی آبادی میں صرف ایک فیصد طلباء اعلی تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں یعنی بظاہر 24/25 لاکھ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں اور ہم تعداد کے اعتبار سے ایک فیصد کو بھی تسلی بخش معیار تعلیم فراہم نہیں کرپارہے یہ محض لمحہ فکریہ نہیں بلکہ قائد کے فرمان کے مطابق صفحہ ہستی سے مٹ جانے والی راہ پر ہیں، اقتدار کے اعلی ایوانوں میں کبھی ایک ہفتے کا سیشن صرف بابت نہیں طلب کیا گیا کہ ہمارا معیار تعلیم کہاں کھڑا ہے ہم کیسے بہتری کی طرف آسکتے ہیں اور مسائل کا حل کیا ہے محض فنڈز ہی بنیادی مسئلہ نہیں بلکہ انکی مناسب ایلوکیشن بڑا مسئلہ ہے کبھی اس سنجیدہ اور قوموں کی تقدیر کا رخ بدل دینے والے موضوع کو اسمبلیوں میں بیٹھے ہمارے نمائندوں نے اہتمام کے ساتھ ذکر نہیں کیا پھر مشترک نصاب مشترک قوم کے تمام نعرے اور تبدیلیاں کھوکھلی ہیں، چاہیے تو یہ کہ ملک کی آبادی کا ستر فیصد نوجوان آمادہ انتخابات کو تعلیم کا ریفرنڈم بنا دیں ، بدقسمتی یہ بھی ہے کہ براہ راست سٹیک ہولڈر طبقہ یعنی طالبعلم کو کسی بھی سطح پر مشورہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا نہ جامعات کی سطح پر نہ ایچ ای سی اجلاس میں نمائندگی حالانکہ انکی موثر شمولیت کے بغیر تمام مسائل کا حل بھی ممکن نہیں، اساتذہ کی تنظیمیں جامعات میں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی اور نتائج حاصل کرتی ہیں مگر طلباء تنظیموں پر تیس سال پابندی عائد ہے کہ وہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کریں تو انہیں یونیورسٹی سے فارغ کردیا جاتا ہے،ضرورت اس امر کی ہے اگر ہم واقعی تعلیمی نظام کے ذریعے انقلاب پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں ایک طویل سنجیدہ اور بامقصد مکالمے کو شروع کرنا ہوگا ایک قومی کمیٹی تشکیل دینا ہوگا جسمیں وائس چانسلرز،اساتذہ ،طلباء ،ماہرین تعلیم، معاشی و سماجی ماہرین، قانون دان، صحافی اور دانشور شامل ہوں جنہیں ایک ٹائم فریم دیکر بنیادی مسائل کے حل کا خاکہ تیار کرنے کا کہا جائے محض مسائل پر بحث نہیں بلکہ ہر ایک مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کے مشورہ سے مرتب کیا جائے یہ قومی کمیٹی کسی جماعت کے ماتحت نہ ہو بلکہ قومی مفاد میں خواہ کوئی بھی جماعت اقتدار میں ہو اسے کام کرنے دیا جائے ویسے اگر سٹیک ہولڈرز راضی ہوں اور غیر سیاسی عمل کو جاری رکھا جائے تو یہ کام ایچ ای سی کی سپرویژن میں بھی ہوسکتا ہے مگر پہلے ایک مستقل اور میرٹ پر غیر سیاسی چئیرمین اعلی تعلیمی کمیشن تعینات کیا جائے، اس حوالے سے قومی کمیٹی کے لئے جامعات، سینئر اساتذہ، طلباء تنظیموں اور تعلیم کے لئے کام کرنے والی غیر حکومتی تنظیموں سے بھی تجاویز طلب کی جائے تاکہ کوئی پہلو باقی نہ رہے اور مشترک لائحہ عمل بن سکے، یہ وقت کی ضرورت ہے اس پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا حکومتوں کے ساتھ ساتھ رئیس الجامعات کی بھی ذمہ داری ہے اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے طلباء کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے قومی مفاد میں ترقی کا زینہ سمجھتے ہوئے پاکستان کی بقاء کے لئے اس کار خیر میں حصہ لیں تاکہ علم کے چراغ جلیں اور اندھیرا چھٹ جائے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :