ان پڑھ والدین

منگل 17 نومبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

وہ بہت دنوں سے مجھے میسج کر رہا تھا۔ پر میرے ذاتی مصروفیات اور ٹائم کی فرق کی وجہ سے کبھی امنے سامنے بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ ایک سٹوڈنٹ تھا۔ وہ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ جو وہ امنے سامنے ہو کر ہی پوچھ سکتا تھا۔وہ بہت ہی قابل اور زھین بچہ تھا ۔ اور اس کی پرورش بھی بہت اچھے طریقے سے ہوئی تھی۔ جب میں نے ان سے بات کی تو میں اس سے بہت متاثر ہوا۔

وہ بہت ہی زبردست قسم کا سٹوڈنٹ تھا۔ وہ اول کلاس سے ہی قابل ترین بچوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نے میٹرک بہت ہی اچھی نمبروں سے پاس کیا تھا ۔ اور ماشاءاللہ ایف ایس سی میں بھی وہ ٹاپ پر تھا۔وہ مجھے اکثر مسینجر پر میسج کرتا تھا۔ لیکن ہم بیک وقت ان لائن نہیں ہوتے کیونکہ وہ پاکستان میں رہتا ہے اور میں سعودی عرب میں ، دونوں ملکوں کے ٹائم میں فرق ہے۔

(جاری ہے)

میں ڈیوٹی کے دوران موبائل استعمال نہیں کرتا۔ ۔۔
اس کا سوال ایسا تھا جو اجکل ہمارے معاشرے میں ہر بچے کا سوال ہے۔ وہ بولا سر جی میں ہر کلاس میں فرسٹ سیکنڈ تھرڈ آتا رہا ۔ میں بہت محنت کرتا رہا ۔ یہاں تک کہ میں نے ایف ایس سی اچھی نمبروں سے پاس کیا ۔ میرے والدین بہت سخت مزاج ہیں۔ وہ مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نہیں دیتے ۔ میں گھر سے نکلتا ہوں۔

تو بلا وجہ روک ٹوک شروع کرتے ہیں۔ رات کو اگر رش یا کسی اور وجہ سے لیٹ ہو جاو۔ تو فون پے فون اور گھر پہنچ جاؤ تو ڈانٹنا شروع کر لیتے ہیں۔ بولتے ہیں تو ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ تو آوارہ ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں تو کیا کیا گل کھلائے گا ۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔اس نے بہت سے دوسرے گلے شکوے کی ۔ جو اگر میں یہاں تحریر کرتا جاؤں تو تحریر بہت لمبا ہو جائے گا۔

میں نے اپنے کمزور سے تجربے کے بنیاد پر اسے جواب دیا ۔ اور اسے مطمئن کیا ۔ وہ تو ایک سٹوڈنٹ تھا۔ جس کو میں مطمئن کر گیا۔ لیکن۔۔۔۔۔۔
آجکل زیادہ تر ہمارے نوجوانوں کو اپنے والدین سے اپنے بڑوں سے اور اپنے خیر خواہوں سے یہ شکوہ ہے یہ شکایت ہے۔ کہ کچھ بھی کر لوں لیکن ان کو خوش کرنا اور ان کے معیار پر پورا اترنا مشکل ہے۔۔۔
میں نے اس سمجھایا کہ بیٹا یہ تمھارے والدین کا تربیت ہی ہے ۔

جس نے مجھے متاثر کیا ۔ اور میں آپ کے لیے وقت ڈھونڈنے لگا ۔ اپ سے رابطہ کرنے کے لئے انتظار کرتا رہا۔ یہ ان کی مرہون منت ہی ہے۔ کہ تم مجھے آپ،  سرجی  ، استاد محترم،  اور دوسرے بہت سے خوبصورت ناموں سے یاد کر رہا ہے۔ بیٹا آپ کی والدین جس طریقے سے آپ کی تربیت کر رہے ہیں ۔ اگر تم تھوڑا اور صبر کر لو۔ ان کی بات مانتے رہو۔ تو تم ہیرا بناوگے انمول ہیرا۔

پھر تم فخر سے امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب کی طرح یہ بات بتاوگے کہ میرے جوتے پھٹے ہوئے تھے اور میں اپنے ماں سے نئے جوتے خریدنے کی ضد کر رہا تھا۔ جو اس کی پہنچ سے دور تھا۔ اس نے میری ٹوپی ٹیڑھی کی اور کہا اب جاؤ سکول کوئی تمھارے جوتوں کو نہیں دیکھے گا۔ ان کی نصحیت تمھارا پہچان بن جائے گا۔ تم بڑے بڑے محفلوں میں جناب قاسم علی شاہ صاحب کے طرح اپنے والدین اور ان کی نصحیت کو دوہراو گے ۔

ان کی ایک ایک بات،  ایک  ایک جملہ ایک مثال کے طور پر بیان کرو گے ۔ اور ان بے جا روک ٹوک  کرنے والوں کو دعائیں دو گے ۔ ابھی تو جوانی کا داور ہے۔ نادانی کا زمانہ ہے تم پر ، ابھی تو تم  کو اپنے والدین بے وقوف،  بے تعلیم،  ناسمجھ اور دنیا کے رسم و رواج سے نا واقف معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن جب تم خود اس سٹیج پر اوگے ۔ جب تم خود کسی کی والدین میں شمار ہونگے۔

تو تم ان کی ہر سختی کو ہر تنقید کو سبق سمجھ کے یاد کروگے ۔ یہ ان پڑھ اور زمانے سے نہ سمجھ والدین تم کو پی ایچ ڈی ڈاکٹروں سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ لگیں گے۔
آجکل کے نوجوان نسل  والدین کی روک ٹوک اور سختی کو اپنے کامیابی کے راستے کا بہت بڑی رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔ اکثر سنے کو ملتا ہے کہ خود اس نے کچھ نہ کیا اب ہمیں بھی کچھ نہیں کرنے دیتا۔

بیٹا یہ جو تم اج کر رہے ہوں وہ بہت پہلے ان پر گزر گیا ہے۔ وہ ایک کہانی  جو سکول اور کالجوں میں نہیں پڑھائی جاتی یہ ہے کہ ایک دن ایک استاد نے ایک پرچہ تیار کیا اور شاگردوں کو حل کرنے کے لیے دیا ۔ استاد کے اسسٹنٹ نے وہ پرچہ اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ اگلے سال جو پرچہ استاد نے سیٹ کیا وہ بالکل سم ٹو سم تھا۔ اسسٹنٹ نے استاد سے پوچھا جناب یہ تو اگلے سال کا پرچہ ہے۔ اور اس کے سوال تو سب ان جیسے ہے۔ استاد نے ایک تاریخی جملہ بولا کہ " سوال تو وہی ہوتے ہیں بس جواب بدل جاتے ہیں " ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :