امتحان غربت

منگل 4 مئی 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

دوپہر کی تپتی دھوپ میں پیروں میں پرانے جوتے پہن کے کندھے پے چادر رکھ کے وہ سگنل پر بیٹھ کر نا جانے کس کا انتظار کر رہا تھا۔ چونکہ میرا روزہ تھا اور مجھے بہت گرمی محسوس ہو رہی تھی اسلئے میں جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ لیکن جب اسے دیکھا تو ایک دم سے میں سب کچھ بھول بھال کے اس کو دیکھتا رہا ۔ اس کے چہرے پر موجود لکیروں کو ، اداسی کو ، امید کو پڑھتا رہا ۔

یہاں ہر کوئی میرے طرح جلدی میں تھا ۔ سب کے سب پکے مسلمان دھوپ سے بچنے کے لئے جلدی جلدی اپنے کام نمٹا رہے تھے۔ تاکہ گھر جا کے آرام سے پنکھے کے نیچے اے سی کے سامنے بیٹھ کر اپنا روزہ پورا کر سکے ۔ کیونکہ اللہ نے ہم سے اپنے بارے میں پوچھنا ہے۔ کہ اپ نے روزہ رکھا ، نماز پڑھا ، امیروں،  صاحب استطاعت،  بڑے بڑے عہدوں پر براجمان لوگوں کو افطاری کرائی کہ نہیں، اس مزدور کے بارے میں،  اس غریب کے بارے میں تو حکومت وقت سے ، اور خود ان سے سوال کیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

کہ کیوں تم میں وہ طاقت، وہ صلاحیت،  اور وہ قابلیت نہیں تھی جس سے تم آرام سے اپنی زندگی گزارتے ، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ، آرام دہ گاڑیوں میں سفر کر کے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے اسے دیکھا ہے جب سے اس کا درد محسوس کیا ۔ جب سے ان کی جگہ خود کو رکھ کے سوچا ہے۔ مسلسل ایک تکلیف دہ احساس،  اور ایک شرمندہ سا مزاج بنا ہوا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مزدوری کرنا جرم ہے۔

میں یہ نہیں کہتا امیروں،  اور افسر شاہی کی طرح کہ ان لوگوں کو کوئی کام کرنا نہیں آتا کیونکہ میں خود ایک مزدور ہو۔ مجھے اس کے تکلیف کا، اس درد کا، اس انتظار کا ،اس امید کا بہت اچھی طرح سے اندازہ ہے ۔ لیکن مجھے دکھ اور شرمندگی تب محسوس ہوئی جب ایک اللہ کا کمزور بندہ جسے اللہ عہدے اور طاقت میں ازما رہا ہے کہنے لگا یہ لوگ کسی کام کے بھی نہیں،  گندے کپڑے پہن کے،  بے ترتیب بال بنا کے ، خود کو غریب اور مفلس بنا کے نکل آتے ہیں گھروں سے اور اکے یہاں بیٹھ جاتے ہیں،  یہ لوگ کوئی کام ، کاروبار،  وغیرہ کیوں شروع نہیں کرتے ، بہت سے ایسی باتیں وہ کر گیا کہ اگر میں یہاں بیان کرو تو شاید میرے ساتھ آپ بھی رو رو کے یہ دعا کریں۔

۔  ۔۔
اس   درد   کی   دنیا   سے  گزر  کیوں نہیں جاتے
یہ   لوگ بھی کیا   لوگ   ہیں مر  کیوں نہیں جاتے
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی ہیں لب پر
بگڑے   ہوئے   حالات   سنور   کیوں    نہیں    جاتے
جب اللہ ہمیں دو چار روپے ، کوئی عہدہ،  رزق میں فراخی فراہم کرتا ہے۔ تو ہم کہتے ہیں یہ میری قابلیت  ، میری شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے۔

میں نے یہ کیا وہ کیا فلاں ڈگری حاصل کی وغیرہ وغیرہ،  ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم سے اچھے اور قابل لوگ،  ہم سے زیادہ تعلیم یافتہ اور محنتی لوگ ہم سے پیچھے صرف تقدیر ، اور قسمت کی وجہ سے ہیں۔ وہ بھی ایسی ہی محنت کر رہے ہیں جیسے ہم نے کی ۔ لیکن ان کا حصہ تھوڑا اور ہمارا زیادہ رکھ کے وہ رب، وہ مشکل کشا،  وہ مہرباں ذات ہمیں ازما رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا کہ جس انسان کو میں نے معاملات کے لیے پیدا کیا جن کا ہر لمحہ ہر معاملہ عبادت ہونا چاہیے تھا وہ  کیا کر رہا ہے۔

وہ میرے نعمتوں کا شکر ادا کر کے میرے دے ہوئے کو دوسروں میں بانٹ رہا ہے یا ٹوپی ٹیڑھی رکھ کے خود کو معتبر اور پیسے وإلا سمجھ کے تکبر میں مبتلا ہوگیا ہے۔ ۔۔۔
کیا کل کو اللہ ہم سے صرف ہمارے عبادات کے بارے میں سوال کریگا؟ کیا اللہ صرف میرا اور آپ کا رب ہے ؟ کیا اللہ اس مزدور کو اس کمزور اور غریب کو وافر مقدار میں رزاق نہیں دے سکتا؟ کیا وہ رب ہمیں دیکھ نہیں رہا کہ ہم ان کے نعمتوں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں؟ کیا وہ مشکل کشا وہ رحیم وہ وکیل ذات ہم سے اپنے نعمتوں کے استعمال کے بارے میں نہیں پوچھے گا؟ یہ وہ سوالات اور پوائنٹس ہیں جو ہم بھلا چکے ہیں۔

ہم خود کو عقل کل ، قابل کل ، دانا کل ، اور تاجر کل سمجھ کے ان کے بندوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اور وہ یہ دیکھ کے ہم کو مہلت پے مہلت دے رہا ہے۔ لیکن اللہ نہ کرے اگر یہ مہلت ختم ہوگئی تو پھر تباہی بربادی،  ہماری مقدر ہوگی۔۔۔۔
دوستوں رمضان مبارک کا بابرکت مہینہ ہے ۔ اور کرونا کے تباہ کاریوں سے مزدور اور غریب طبقے کی زندگی بہت متاثر ہوئی ہے۔

ان لوگوں کے بچے بھی ہمارے بچوں کی طرح بہت پیارے اور لاڈلے ہیں۔ ان کے بچے بھی عید اور افطاری میں اچھے اچھے کھانے اور کپڑے پہننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کے بچوں کا بھی دل چاہتا ہے عید میں نئے جوتے پہننے کو، اور ان غریبوں کا بھی دل کرتا ہے کہ عید پر یہ لوگ چھٹی کر سکے عید اپنے پیاروں کے ساتھ روزی روٹی کے فکر سے آزاد ہو کے منا سکے ۔ اپنے بس اور اسطاعت کے مطابق ان کی مدد کریں،  مالی مدد نہیں کرسکتے تو کوئی کام مزدوری ڈھونڈ کے ان کی مدد کریں یہ بھی بس میں نہ ہوں تو کم از کم ان کو نالائق اور نااہل سمجھنا چھوڑ دے ۔

یہ اللہ کی تقسیم ہے اور اللہ اپنے کام اور تقسیم کو بہت اچھے طریقے سے جانتا اور کرتا ہے۔کسی کے گھر اگر افطاری نہیں بھیج سکتے کسی کو عید کے لئے نئے کپڑے اور جوتے نہیں دلا سکتے تو ان کا مذاق بھی نہ بنائیں۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :