
خوف کا فلسفہ ،ضیاءالحق سے عمران خان تک
جمعہ 24 جنوری 2020

ارشد سلہری
(جاری ہے)
سلام کر کے وہاں سے رفوچکر ہونے میں اپنی عافیت سمجھی ۔
مذہب کا خوف بڑا کارگر ہتھیار ہے ۔جس کا برملا استعمال آمر ضیا الحق کے دورمیں کیا گیا۔موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگااس وقت کی مقبول ترین کتاب تھی۔ضیاالحق کے گیارہ سال پاکستان کے عوام نے خوف زدہ ہوکر گزارے ۔بعدازاں یہ چلن عام ہوتا گیا ۔یہ اختیار مذہبی گروہوں اور رسہ گیر وں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خود فیصلے کرنے لگے ۔بلاس فہمی کے الزامات میں کئی گھرانے اجڑ چکے ہیں اور ہزاروں افراد نے مقدمات اور مشکلات کا سامنا کیا ہے۔
یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔گزشتہ دنوں ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو نوعمر لڑکوں کی خود لگائی گئی عدالت میں اپنی صفائی دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ طالب علم نے اپنے استاد کو قتل کر دیا ۔بے شمار ایسے واقعات ہیں ۔کسی ایک ایسے سانحہ پر وزیراعظم سمیت کوئی وزیر اور چھوٹے سے چھوٹا اہلکار بھی متاثرین کی اشک شوئی کےلئے کبھی نہیں گیا ہے۔ریاست اور حکومت مکمل لاتعلق رہتی ہے۔معمول کی کارروائی کی جاتی ہے۔مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا جاتا ہے۔
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں کے متعلق ریاستی رویہ نرم ہوتا ہے۔فیض آباد دھرنے کی مثال سامنے ہے۔ جب تحریک لبیک کے لوگوں کو گھروں میں واپسی کےلئے کرایہ تقسیم کیا گیا تھا۔بعض مواقع پر مظاہرے کرنے کےلئے بھی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔حکمرانوں کےلئے یہ لوگ آکسیجن کا کام کرتے ہیں اور بوقت ضرورت کام آتے ہیں ۔
حکمران جب عوام کے مسائل سے صرف نظر کرتے ہیں اور عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں ایسے ایشوز کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام اور میڈیا کی توجہ اصل ایشوسے ہٹا سکیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سرمد سلطان کی فلم زندگی تماشا سنٹرل سنسر بورڈ نے پاس کردی تھی مگر پھر نمائش روک دی گئی کہ تحریک لبیک نہیں چاہتی ہے کہ فلم کی نمائش ہو۔اب فلم کی نمائش کی اجازت دینا اسلامی نظریاتی کونسل پر ہے کہ کونسل کیا فیصلہ دیتی ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں میں ایسے لگتا ہے کہ ضیا الحق کی روح عود آئی ہے ۔جو ہر بات میں خوف کے عنصر کو شامل کرکے عوام کی توجہ مسائل و بحران سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔باخبر حلقے جانتے ہیں کہ خوف کے ماحول میں ملک کی ترقی کیا ہوتی ہے اور ضیاء الحق کی خرافات نے ملک کو جن اندھروں کی نذر کیا وہ اندھرے آج تک مسلط ہیں ۔عمران خان حکومت نے بھی ضیاءالحق کا راستہ اپنا لیا ہے ۔جس کی منزل روشنی نہیں ہے بلکہ روشن آوازوں کو دبانے اور ختم کرنے کی کوشش ہے ۔آوازیں دبانے کاعمل واپسی کا سفر ہے ۔جس کے سرخیل آمر ضیاءالحق تھے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ارشد سلہری کے کالمز
-
عبادات سے سماجی ذمہ داری زیادہ ضروری ہے
جمعہ 2 جولائی 2021
-
اسلامی نظام کیا ہے اور نفاد کیسے ہوگا
بدھ 30 جون 2021
-
آزاد کشمیر الیکشن ،پاکستان میں مقیم منگلا ڈیم کے ہزراروں متاثرین کے ووٹ کینسل کیوں؟
ہفتہ 19 جون 2021
-
عمران خان اور قیادت کا بحران
بدھ 9 جون 2021
-
آئی ایس آئی کی پبلک ڈومین بند کی جائے یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے
منگل 8 جون 2021
-
درست خیالی کا فقدان کیوں؟
ہفتہ 5 جون 2021
-
الو کے پٹھے
جمعہ 4 جون 2021
-
اسد طور پر تشدد کے خلاف احتجاج کا جائزہ
پیر 31 مئی 2021
ارشد سلہری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.