
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 377 کا خاتمہ کیوں ضروری ہے؟
اتوار 13 ستمبر 2020

ارشد سلہری
موجودہ عہد انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کی مانگ کا ہے۔نسل نو صدیوں کی جکڑبندیوں سے بغاوتیں کر رہے ہیں ۔غلامانہ عہد کا ایک قانون سیکشن 377 آج بھی تعزیرات پاکستان کا حصہ ہے۔جو خوف ،ظلم ،انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کی علامت ہے۔
مجموعہ تعزیرات پاکستان کا بنیادی ماخذ تعزیرات ہند ہے۔
(جاری ہے)
یہ فوجداری قوانین کا ایک جامع مجموعہ ہے۔
جس کا مقصد قانون فوجداری کے تمام اہم مسائل کا احاطہ کرنا ہے۔ اس قانون کا مسودہ 1860ء میں تیار کیا گیا تھا ۔ مجموعہ تعزیرات پاکستان میں دفعہ 377 یا سیکشن 377 جو 158 سال پرانا برطانوی دور حکومت کا ایک قانون ہے۔ جس کے تحت مخصوص جنسی روابط کو غیرفطرتی جرائم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سزا دس سال قید ہے۔اس قانون کے مطابق کسی مرد، خاتون یا جانور کے ساتھ فطری اصولوں کے خلاف جنسی تعلق کا قیام جرم ہے۔377 کا قانون تاج برطانیہ نے غیرجمہوری طریقے سے اپنے زیر تسلط علاقوں میں نافذ کیا تھا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کا عکاس ہے۔سیکشن 377 کا برطانوی راج سے لیکر آج کے دن تک غلط استعمال کیا جارہا ہے۔پاکستان میں خواجہ سرا بالخصوص اور عام شہری بالعموم متاثر ہورہے ہیں ۔377 اسلامی قانون ہے اور نہ اسلام سمیت کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہےبلکہ تاج برطانیہ کے ایک کمیشن جو 1834ء میں چارٹر ایکٹ 1833ء کے تحت تھامس بابنگٹن میکالے کی صدارت میں قائم ہوا تھا۔جس کی شفارشات پر ہندوستان میں غلامی کی جکڑ بندیوں کو مزید مضبوط کرنے لئے مسلط کیا گیا تھا۔جس طرح لارڈ میکالے کا نظام تعلیم آج تک نوآبادیوں میں غلامانہ ذہینت کے تعلیم یافتہ لوگ پیدا کررہا ہے۔سیکشن 377 بھی غلامی کی زنجیر کے طورپر آج بھی بطور ہتھیار استعمال ہورہا ہے۔
جس کی زندہ مثال ملائشیا کے سابق وزیراعظم انور ابراہم ہے ۔جس کےخلاف سیکشن 377 کا سیاسی استعمال کیا گیا اور انور ابراہیم 9سال جیل میں رہے ۔پاکستان میں دفعہ 377 کا شکار بے شمار نوجوان ،خواتین و حضرات ہیں ۔جن کی زندگیاں برباد کردی گئیں اور بعض نے نجات کےلئے خودکشی کا راستہ اختیار کرلیا۔
سیکشن 377 کی آڑ لیکر پولیس بلیک میل کرتی ہےجو کہ معمول ہے۔بالخصوص نوجوان خواتین بات نہ ماننے کی پاداش میں 377 کی نشانہ بنتی ہیں ۔ہمسایہ ملک بھارت میں اس غیرانسانی اور غلامانہ قانون کوختم کردیا گیاہے۔ 2013 میں بھارتی سپریم کورٹ نے سیکشن 377 کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سیکشن 377 بالغ ہم جنس پرستوں کے درمیان ہونے والے اتفاقی جنسی تعلق پر لاگو نہیں ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ ان میں جسٹس انڈو ملہوترہ نے لکھا تھا کہ تاریخ اس کمیونٹی کے ممبران اور ان کے خاندانوں سے معافی مانگتی ہے۔ کہ صدیوں تک انھیں جو تکلیف دی گئی اور ان کا بائیکاٹ کیا گیا۔ اس کے ازالے میں دیر کی۔ اس کمیونٹی کے اراکین انتقامی کارروائی اور ظلم و ستم کے خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
مملکت خدا داد پاکستان میں اس ظالمانہ ،سفاکانہ اور غیر منصفانہ سیکشن 377 کو انسانی بنیادوں پرفوری ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں رہنے والے مختلف جنسی رجحان رکھنے والے افراد اور خواجہ سرا ء دہرے جبر اور خوف سے بچ سکیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ارشد سلہری کے کالمز
-
عبادات سے سماجی ذمہ داری زیادہ ضروری ہے
جمعہ 2 جولائی 2021
-
اسلامی نظام کیا ہے اور نفاد کیسے ہوگا
بدھ 30 جون 2021
-
آزاد کشمیر الیکشن ،پاکستان میں مقیم منگلا ڈیم کے ہزراروں متاثرین کے ووٹ کینسل کیوں؟
ہفتہ 19 جون 2021
-
عمران خان اور قیادت کا بحران
بدھ 9 جون 2021
-
آئی ایس آئی کی پبلک ڈومین بند کی جائے یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے
منگل 8 جون 2021
-
درست خیالی کا فقدان کیوں؟
ہفتہ 5 جون 2021
-
الو کے پٹھے
جمعہ 4 جون 2021
-
اسد طور پر تشدد کے خلاف احتجاج کا جائزہ
پیر 31 مئی 2021
ارشد سلہری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.