قومی سیاست کی حرکیات بدل گئی ہیں

جمعرات 4 جون 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

قومی سیاست میں برپا کشمکش نہایت خاموشی کے ساتھ کورونا وائرس وباء کی لہر میں ڈوب گئی،اسی وبائی خوف نے سیاست کے فطری نشیب و فراز کو کند کر کے ایک قسم کے استبدادی نظام حکومت کی راہ ہموار بنا دی،اب لاک ڈاون کھلنے کے بعد ہماری سیاسی اور سماجی دنیا ویسی نہیں ہو گی جیسے پہلے تھی۔کورونا وائرس کی حقیقت اور وباء کے طبی اثرات سے قطع نظر ریاستی مقتدرہ نے خوف کی اس لہر کو انتہائی ہوشیاری کے ساتھ استعمال کر کے متنوع سماجی وظائف اورجمہوری آزادیوں کو کافی حد تک محدود کر لیا۔

اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ہماری مقتدرہ نے قومی سفر کے ان ستّر سالوں میں دفاعی امور کے ساتھ پاور پالیٹکس کی سائنس کو برتنے کی مہارت بھی حاصل کر لی،قرائین بتا رہے ہیں کہ پولیٹکل فورسیزسیاسی میدان میں بھی اب ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔

(جاری ہے)

بلاشبہ ماضی کی ریاستیں وسیع تر مقاصد اور انبوہ کثیر کو سمبھالنے کیلئے سیاسی تنظیموں کی لیڈر شپ سے جو کام لیتی رہیں،کوئی سرکاری ادارہ اس کا متبادل نہیں بن سکتا تھا،یہ سیاسی جماعتیں ہی ہیں جو امیدوں کے بھوکے عوام کو سیاسی منشور اورخوبصورت نصب العین کا گرویدہ بناکے ریاستی مقاصد کے لئے بروکار لا سکتی ہیں۔

عوام کو مینیج کرنے کے لئے اگر سیاسی جماعتوں کا ٹول ناگزیر نہ ہوتا تو ایوب خان،ضیاالحق اور جنرل مشرف جیسے مطلق العنان فوجی آمر مسلم لیگ جیسی مہمل جماعت کی بیساکھیوں کو استعمال کرنے پہ مجبور نہ ہوتے۔سنہ انیس سو ساٹھ اور ستّر کی دھائی کی اسٹبلشمنٹ نے عوامی لیگ کی باغیانہ لہر کو روکنے کی خاطر بھٹو کی پیپلزپارٹی کو پروآن چڑھنے کی سہولت فراہم کی تھی،پھر بھٹو ازم کے سیاسی غلبہ سے نجا ت پانے کی خاطر نشنل عوامی پارٹی،تحریک استقلال اورجماعت اسلامی جیسی متضاد نظریات کی حامل جماعتوں کا کندھا استعمال کیا۔

لاریب!نظام مصطفٰیﷺ کے نفاذ کی تحریک اگر فضاء نہ بناتی تو مقتدرہ کے لئے بھٹو کے سحر کو توڑنا ناممکن ہوتا۔غیر جماعتی انتخابات کرانے کے باوجود ضیاء الحق کی مقدس آمریت کوآخرکارمسلم لیگ جیسی متروک جماعت کو دوبارہ زندہ کرکے عوام کو انگیج کرنا پڑا۔بلکہ پیپلزپارٹی کے خوف نے جی ایم سید کی نفرت انگیز قوم پرستی اور الطاف حسین کی مہیب فسطائیت کو آمریت کے لئے گوارا بنا دیا۔

لیکن جب خانہ ساز مسلم لیگ کے اندر سے اٹھنے والی قیادت نے ریاستی مقاصد کی اطاعت گزاری کی بجائے عوامی حقوق کی بازیابی کا لہجہ اپنایا تو اسے دھتکار کے رائے عامہ کومینیج کرنے کی خاطر ایک نئی جماعت کی آبیاری کرنا پڑی۔چنانچہ جس وقت پیپلزپارٹی اور نواز لیگ سمیت اجڑی ہوئی سیاسی جماعتیں آئین وقانون کی بالادستی اور عوام کے حق حاکمیت کی بحالی کی خاطر جمہوریت کے رومانوی میثاق پہ دستخط کرنے کی رسم ادا کر رہی تھیں عین اس وقت ریاست کی نرسری میں ایسی نئی سیاسی جماعت پروآن چڑھ چکی تھی،جو پَل بڑھ کے اس وقت ریاست کے مقاصد کی نگہبانی میں مشغول ہے۔

ڈیگال نے کہا تھا”سیاست میں وطن کو دھوکہ دینا پڑتا ہے یا پھر عوام کو“۔ہمارے سیاستدان وطن کو دھوکہ دینے کی سکت تو نہیں رکھتے لیکن عوام کو دھوکہ دینے میں یدطولی رکھتے ہیں۔دور مت جایئے،ماضی قریب کی ملکی تاریخ پہ نظر ڈال لیجئے،ہماری سیاسی جماعتوں نے دل آویز نصب العین کے علاوہ آزادی و مساوات کے مسحور کن نعروں کے ذریعے عوام کوسہانے خواب دیکھائے لیکن آخر کار شراکت اقتدار جیسی معمولی قیمت لیکر سمجھوتہ کرنے میں تاخیر نہ کی،افسوس کے جن لوگوں کے گرد ہم نے مقبولیت کا ہالہ کھنچا ان کی ممتاز ترین صفت بزدلی اور کم ہمتی تھی ۔

ذولفقار علی بھٹو نے جمہوریت،مساوات اور سماجی انصاف کے نعروں کی گونج میں مقبولیت حاصل کی لیکن انہی کے پورے عہد میں ایمرجنسی کے تحت بنیادی حقوق معطل رہے،جمہوریت کی علامت ذولفقارعلی بھٹو نے اپوزیشن کوساتھ لے کر چلنے کی بجائے یک جماعتی آمریت کی راہ چن لی،حتی کہ جب ان کے اقتدار کو خطرات لاحق ہوئے تو اپنے سیاسی نظریات ترک کرکے اسلامی نظام کے نفاذ سے بھی گریز نہ کیا۔

اسی طرح سیکولرنظریات کی حامل تحریک استقلال اور نیپ جیسی قوم پرست جماعت نے پہلے نظام مصطفیﷺ کی تحریک کی آبیاری کیلئے کارکنوں قربان کرائے، بعدازاں سیاسی مصلحتوں کے تحت ضیا الحق کی مارشل لاء کی حمایت کے لئے کئی مہمل جواز تراش لئے۔ایم کیو ایم جس نے سندھ میں کوٹہ سسٹم کے خاتمہ،بہاریوں کی واپسی اورکراچی کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبات کے ذریعے پڑھے لکھے طبقات کی توجہ حاصل کی، سیاسی طاقت پانے کے بعد عوامی مطالبات کو پس پشت ڈال کے اعلانیہ ریاستی مقتدرہ کی آلہ کار بن گئی۔

حتی کہ اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والی مذہبی جماعتوں کے اتحاد،ایم ایم اے،کو جب خیبر پختون خوا جیسے اسلام پسند صوبہ کا اقتدار ملا تو علماء کرام نے اپنے منشور سے منہ موڑ کے لبرل آمریت کو کندھا دینے میں عافیت تلاش کی۔آج بھی مذہبی و سیاسی جماعتیں عوام کی آواز بننے کی بجائے کرونا وباء کے دوران بائیس کروڑ انسانوں کو پابازنجیر بنانے کی مشق ستم کیش میں ریاست کی سہولت کار بنی ہوئی ہیں۔

سندھ میں پیپلزپارٹی کی عوامی حکومت صرف مرضی کا چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس تعینات کرانے کے عوض کورونا وباء کے خوف کی آبیاری کے ذریعے نہایت بے رحمی کے ساتھ سندھی عوام کی مشکیں کسنے پہ کمر بستہ ہو گئی،یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے لاک ڈاون میں پہل کر کے ملک میں وہ مخصوص فضا پروان چڑھائی جس سے جمہوری سیاست کا پورا بیانیہ بدل گیا،دائیں اور بائیں بازو کے خوش گمان لکھاری اورمرکزی دھارے کا فعال میڈیا بنیادی حقوق کے تحفظ،افغان وار کے انجام،کشمیریوں کی مشکلات اورگورنمنٹ کی معاشی پالیسیوں کے مضمرات جیسے ایشوزکو نظراندازکر کے کورونا وائرس سے جڑی فضول جزیات کو زیر بحث لا کے رائے عامہ کے دھیان کو نادیدہ خوف کی طرف موڑنے میں جُت گئے۔

طے شدہ پلان کے مطابق ایک طرف پیپلزپارٹی نے وباء کے خوف کا ناقوس بجا کے وفاقی حکومت کو ہدف تنقید بنایا تو دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے دھیمے لہجہ میں لاک ڈاون کی مخالفت کر کے مخالفین کیلئے بچھائے گئے اس دام کو زیادہ پرکشش بنا دیا،مخصوص حکمت عملی کے تحت پہلے لندن میں بیٹھی نواز لیگ کی قیادت کو خفیہ مذاکرات کے ذریعے انگیج کیا گیا،پھر لاک ڈاون سمیت کئی پالیسی امور پہ وفاقی حکومت اور مقتدرہ کے مابین اختلافات کی خبروں کی اشاعت کے ساتھ ہی اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کولندن سے واپس بلوا کے اپوزیشن کیلئے تبدیلیوں کا سراب پیدا کیا گیا۔

اسی نفسیاتی ماحول میں اپوزیشن کی کہنہ مشق قیادت بخوشی اس لاک ڈاون کی حمایت پہ کمربستہ ہو گئی جسے بلآخر انہی کی مزاحمتی سیاست کا واٹر لو بننا تھا،ذرا غور کیجئے اگر وفاقی حکومت لاک ڈاون کے نفاذ پہ اصرارکرتی تو اپوزیشن مخالفت پہ اتر آتی اور صرف یہی ایشو اس سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا دیتا جو حکومت کے سر پہ تلوار بن کے لٹک رہی تھی۔ مقتدرہ نے کمال مہارت سے بپھری ہوئی اپوزیش کو یہ یقین دلانے میں کامیابی پائی کہ لاک ڈاون حکومت کے خلاف شدیدترین عوامی ناراضگی کا محرک بنے گا،اس لئے عمران کے مخالفین لاک ڈاون کو مزید سخت کرنے کے مطالبات دہراتے رہے۔

لیکن اِسی ملتبس ماحول میں ریاستی مقتدرہ نے بغیر کسی رکاوٹ کے لاک ڈاون کے نفاذ اور ایس او پی پہ عمل درآمد کی آڑ میں ملک بھر میں نہ صرف حکومت مخالف سیاسی سرگرمیوں کا سرکچل دیا بلکہ ایک فعال مذہبی نظام پہ بھی اپنی گرفت مضبوط کرکے ایک مفید ستبدادی طرز حکمرانی کی بنیاد رکھی دی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :