سریاب کسی کو یاد ہی نہیں

پیر 13 جولائی 2020

 Asmat Ullah Shah Mashwani

عصمت اللہ شاہ مشوانی

سریاب پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ کی مرکزی داخلی سڑک ہے جو نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے ملتی ہے۔ سریاب کوئٹہ شہر کا سب سے بڑا علاقہ ہے، جس میں اہم مقامات (برما ہوٹل، بلوچستان یونیورسٹی، ڈگری کالج، کیچی بیگ، شیخان، چکی شاہوانی، گاہی خان چوک، فیض آباد،  موسی کالونی، کلی بنگلزئی، بی بی زیارت، کلی نیچاری، واپڈا کالونی وغیرہ) شامل ہے، یہ ایک طویل علاقہ ہے تقریباً 10 کلومیٹر اور اس علاقہ میں کوئٹہ شہر کی تقریباً 2 لاکھ سے زائد آبادی آباد ہے سریاب کا اکثر علاقہ کچی آبادی پر مشتمل ہے سریاب کے علاقے میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہے مثلاً براہوئی، پشتو، بلوچی، اور دیگر علاقاہی زبان سریاب کوئٹہ کا وہ علاقہ ہے جسے باہر سے ہمارے مہمان پہلی نذر میں دیکھتے ہے۔

(جاری ہے)

یہاں سے ہی آنے والوں کو کوئٹہ کے خوبصورتی کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ وہی خوبصورت کوئٹہ شہر ہے جسے ایک وقت یعنی کہ انگریز کے زمانہ میں چھوٹا لندن اور چھوٹا پیرس کے نام سے پکارا جاتا تھا کوئٹہ شہر کے سریاب روڈ سے داخل ہوتی ہی دیکھنے والوں کو کوڑا کرکٹ سیوریج کا بُرا حال ہر جگہ نذر آئیےگا مین شارع ہونے کے باوجود رات کے وقت مکمل اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے کیونکہ سریاب کو 2008 کے بعد اسٹریٹ لائٹ بھی نصیب نہیں ہوسکا سریاب روڈ کی تعمیر سب سے پہلی بار 1990 میں نواب اکبر خان بگٹی کے دور وزیراعلی بلوچستان میں ہوئی جس کے بعد آج تک دوبارہ سریاب روڈ پر کوئی تعمیراتی کام نہیں ہوا اگر سریاب کی پہچان کی بات کریں تو سریاب روڑ کو ایک خوفناک اور خطرناک علاقے کے نام سے لوگ جانتے ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے وہ اس لحاظ سے کے سریاب ایک بڑا علاقہ ہے یہاں کہی اور کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو لوگوں کے زبانوں پٙر اول نام سریاب کا آتا ہے کہ واقعہ تو سریاب کے قریب ہی ہوا ہے دراصل وہ واقعہ سریاب روڈ سے کافی دور پیش آیا ہوا ہوتا ہے یہ اُس وقت کی بات ہے جب پورے بلوچستان اور کوئٹہ شہر کا امن خراب تھا۔

سریاب کے لوگ اس جدید دور زندگی میں بھی بنیادی مسائل سے محروم ہے۔ سریاب میں تعلیم، صاف پانی، بجلی، گیس پریشر، اور صحت کے بہت مسائل موجود ہے پہلے تو لیڈرز ایک ہی بات کہتے تھے کہ سریاب کا علاقہ بہت بڑا ہے تمام مسائل ایک ایم پی اے نہیں سنبھال سکتا۔پاکستان میں 2018 کے جنرل الیکشن سے پہلے ہی نئی حلقہ بندیاں کی گئی تو سریاب کو 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا حلقہ پی بی30, حلقہ پی بی 31, حلقہ پی بی 32 اس حساب سے 2018 کے بعد سریاب کے علاقے میں ایک نہیں تین۔

تین ایم پی اے صاحبان موجود ہے۔ حلقہ پی بی 30 کا ایم پی اے احمد نواز بلوچ ہے جن کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے ہے حلقہ پی بی 31 کا ایم پی اے نصراللہ خان زیرے ہے زیرے 2013 کے الیکشن میں پہلی بار ایم پی اے منتخب ہوئے تھے اُس وقت بھی سریاب کا علاقہ ان کے حلقے میں تھا نصراللہ زیرے کا تعلق پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سے ہے حلقہ پی بی 32 کا ایم پی اے ملک نصیر احمد شاہوانی ہے ان تینوں ایم پی ایز نے سریاب کے مسائل تاحال حل نہیں کئے جب بھی جرنلسٹ سریاب کے مسائل پر بات کرتا ہے تو اِن تینوں ایم پی ایز کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم تو بروقت اپوزیشن میں ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے علاقوں کے مسائل حل کرنے میں پریشانی کا سامنا ہے سریاب روڈ کی پسماندگی کی بڑی وجہ صرف اور صرف کرپشن ہے زیادہ پیچھے نہیں صرف گزشتہ 2 گورنمنٹ سے جاری کردہ رقم آج تک سریاب کے علاقے پٙر خرچ نہیں ہوئے 2013 کے الیکشن کے بعد سابقہ وزیراعلی ڈاکٹر مالک بلوچ جن کا تعلق بلوچستان کے نیشنل پارٹی سے تھا اُن کے دور حکومت میں ایک کٙثیر رقم سریاب کے تعمیر او ترقی کیلئے مختص ہوئی مگر کام کوئی بھی نہیں ہوا اُس کے بعد نام سابقہ وزیراعلی نواب ثناء اللہ زہری کا آتا ہے جِنہوں نے سریاب کی خوبصورت کے لیئے ایک بڑی رقم مختص تو ہوئی مگر پسماندہ سریاب علاقے کا نصیب ہوئی پُرانا تھا کہ اس بار بھی کوئی کام نہیں ہوا اور اب موجودہ وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان جو جام فیملی سے بلوچستان کے تیسرے وزیراعلی ہے نے حالیہ بجٹ 2020-2021 سے سریاب روڈ کے تعمیر او  ترقی کیلئے 5.4 ارب روپے کا بہت ہی بڑا رقم تو مختص کردیا ہے۔

تو کیا اِس بار سریاب کے علاقے میں تعمیراتی کام شروع ہوگا یا یہ رقم بھی کرپشن کی نذر ہوگی یہ تو وقت ہی بتائیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :