اخلاقیات کا جنازہ

پیر 18 نومبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

اس وقت وطن عزیز پاکستان کو جن بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں اہم ترین مسئلہ اخلاقی زوال ہے ۔ سیاسی و سماجی ،معاشی ومعاشرتی ،تعلیمی و تربیتی اورثقافتی لحاظ سے ہر شعبہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہے ۔من حیث القوم ہم اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکے ہیں ۔اس وقت معاشرے میں اخلاقی امراض ،معیشت میں دھوکہ دہی اور فریب ،معاشرت میں حقوق کی پامالی ،حرص و لالچ ، کینہ پروری ،رشتوں کا احترام ختم ہوجانا ،سیاست میں اصول فراموشی ،سیاسی معاملات میں آمریت و کنبہ پروری ، تعلیم میں معیار کی گراوٹ ،کاروبار میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہوجانا ، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور بچوں کے اغوا وبدفعلی کے بعد قتل کرنے کی لرزہ خیز واقعات اس بات کا عکاس ہیں کہ معاشرہ کس قدر اخلاقی زوال پذیری کا شکار ہے ۔

(جاری ہے)

روزبروز اخلاقیات کا گراف گر رہا ہے ۔حکمران و سیاستدان تو اخلاقیات سے بلکل عاری ہوتے جارہے ہیں ۔ مہذب جمہوری ملکوں میں سیاست منشور ، عوامی و ملکی مسائل کو حل کرنے کے ویژن و پالیسیوں پر ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں سیاست الزام تراشی ،بدلحاظی ،بہتان طرازی ،عیب جوئی پر ہوتی ہے اب یہ سلسلہ دروغ گوئی سے بڑھتے ہوئے گالم گلوچ تک پہنچ چکاہے ۔

اپنی خوبیوں کی بجائے دوسرے کی خامیوں کو زیادہ اچھالا جاتا ہے ۔ہمارے سیاسی قائدین جب کسی جلسے میں اسٹیج پر آتے ہیں تومخالفین کو نیچا دیکھانے اور تضحیک کے لئے فرط جذبات میں وہ وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جو عام لوگ نجی محفلوں میں بھی استعمال کرتے ہوئے شرماتے ہیں ۔عوام کو سبز باغ دیکھائے جاتے ہیں اور یہ جھوٹ بولنا اب معمول بن گیا ہے ۔ ہمارے سیاسی قائدین کی گفتگومیں سیاسی منطق نظر نہیں آتی ،نہ ہی حسن گفتار ،رہی بات کردار کی تو وہ قصہ پارینا بن چکا ہے۔

بات صرف جلسے جلوسوں تک محدود نہیں رہتی بدقسمتی سے ہمارے مقدس ایوان جہاں عوام ان پارلیمنٹیرینزکو قانون سازی کے لئے بھیجتی ہے اس کی کارووائی کو اگر دیکھیں تو وہ اسمبلی کم سیاسی اکھاڑہ کا منظر زیادہ پیش کرتی ہے ۔غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اربوں روپے اجلاسوں و مراعات پر خرچ ہوتے ہیں ستم بالائے ستم تو یہ کہ وہاں قانون سازی تو درکنار عوام کے مسائل پر بحث ومباحثہ کی بجائے اجلاس ذاتی الزام تراشی و پارٹی مفادات کی نذر ہوجاتا ہے ،عملا گفتند ،نشتند ،برخاستند کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔

سیاسی اخلاقیات کا ایک اور مظاہرہ ٹی وی ٹاک شوز میں ہوتا ہے وہاں بیٹھ کر مخالفین کے نام بگاڑنا ،دلائل کی بجائے اونچی آواز میں چیخ چلاکر دوسرے کو زچ کرنا ، مخالف پارٹی کی قیادت کو دشنام دینا ،اپنی جماعت کی پالیسی و منشور کی بجائے دوسری جماعت کے قائدین کو چور ،لٹیرے منافق اور جھوٹے ثابت کرنا ہوتا ہے بس الحفیظ الامان ! سیاست کے بڑے جوزبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں وہ تو بازاری لہجے کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے ۔

پاکستان میں ایک سیاسی ضابطہ اخلاق کے لئے بھی قانون سازی کی اشد ضرورت ہے ۔عوام الناس اپنے قائدین سے سیکھتے ہیں جب کارکن اپنے قائدین کو اس طرح گتھم گتھا و زبان تراشی کرتے ہوئے اور سیاسی مخالفین کو دلیل کی بجائے بدتمیزی سے ڈیل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ وہی طرز عمل سوشل میڈیا و عام جگہوں پر استعمال کرتے ہیں ۔اس وقت معاشرے میں عدم برداشت اتنی بڑھ چکی ہے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کی بات سننے و ماننے کے لئے تیار نہیں ہے چند دہائیاں پہلے ٹینشن ،ڈپریشن ،سٹریس ،انگزائیٹی وغیرہ کا تصور ہی نہیں تھا مگر آج ہمارے معاشرے کا المیہ بن چکا ہے کہ ہر تیسرا بندہ ڈپریشن و سٹریس کا شکار ہے ۔

رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی ہے جس کے منہ میں جو آتا ہے وہ کہہ دیتا ہے
کوئی ضابطہ اخلاق و روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا ٹرولز جس کو چاہیں کافر ،غدار ،ملک دشمن بنادیتے ہیں ۔ ایک فرد پورے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے علامہ اقبال نے فرمایا تھا
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
تو ایک فرد کی خامی کو پوری قوم کی خامی سمجھا جاتا ہے اس لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ معاشرتی رویوں کو بہتر بنانے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے ۔

مہذب قوموں میں خوش اخلاقی ،عزت نفس ،انصاف پسندی اور احترام آدمیت کو مقدم رکھا جاتا ہے ۔قوموں کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے علامہ ابن خلدون نے اپنی شہرہ آفاق کتاب مقدمہ ابن خلدون میں قوموں کے عروج وزوال کا راز بتایا ہے کہ ”دنیامیں عروج وترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے ۔

اگر اس بات کو ہم من حیث القوم تجزیہ کریں تو ہمیں زوال ہی نظر آتا ہے ۔ ہمیں ایک ہجوم سے قوم بننا ہوگا ،اس وقت ہم ایک ہجوم ،بھیڑ کے ریور اور، غول سے بھی بدتر ہیں کیونکہ جانور بھی نظم و ضبط کی ایک حدتک پابندی کرتے ہیں ۔مگر ہم سب اتنے بے صبرے ہیں کہ ٹریفک سگنل پر چند لمحوں کے لئے نہیں رک سکتے ۔اپنی لائین میں چلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اس کی وجہ سے بہت سے حادثات بھی ہوتے ہیں ۔

کسی ایک فرد کی غلطی سے بہت ساجانی و مالی نقصان کا خمیازہ باقی لوگوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔ یہی لوگ جب یورپ میں جاتے ہیں تو وہاں پر سخت قوانین کی وجہ سے مکمل طور پر ٹریفک قوانین کی پابندی کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں آئین و قانون سب کے لئے ہے اور قوانین پر عملدرآمد کے لئے بھاری جرمانے اور سزائیں ہیں ۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی ایک اہم وجہ نفرت و انتقام کا جذبہ ہے ۔

یہ نفرت بہت ہی عارضی و تخریبی جذبہ ہے ہر وقت تنقید ،ہربات پر غصہ کااظہار ،ہر کسی سے انتقام یہ بھی قوم اپنے قائدین سے ہی سیکھتی ہے ۔سیاسی لیڈران کویہ بھی سمجھنا چاہئے کہ انتقام و نفرت کے جذبات وقتی ابال تو ضرور لاسکتی ہے مگر یا ناپائیدار عمل ہے اس پر وقت ضائع کرنے کی بجائے دوسروں کی خامیوں کی بجائے اپنی خوبیوں پر توجہ مبذول کروائی جائے ۔

اہل علم ودانش جواختلاف رائے کے باوجود لحاظ و مروت ،رواداری اور درگزر کادرس دیتے تھے اب ناپید ہوگئے ہیں ۔ ہم بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو بڑی بڑی تہذیبوں اور مضبوط اقوام کی تباہی کا سبب بنیں ۔ بحثیت قوم ہماری منزل کیا ہے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا ۔ہمارا نشان منزل کہاں ہے ؟ اس سوال کا جواب ارباب اختیار ،اہل علم و دانش کو رازی و فارابی کی نکتہ دانی سے ،بوعلی سینا کی القانون سے ،غزالی کے عرفان سے ، ابن خلدون کے مقدمہ سے ، شاہ ولی اللہ کی بلاغت ،سرسید احمدخان کی بصیرت ، علامہ محمد اقبال کی تشکیل جدید اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے فکر وفلسفہ سے غوروخوض سے تلاش کرنا ہوگا کہ من حیث القوم ہماری منزل مقصود ہے کیا ؟ اس معاشرتی بگاڑ کا ذمہ دار کون ہے ؟ اس معاشرتی واخلاقی انحطاط سے ہم کیسے نکل سکتے ہیں ؟ آج قوم ایسے مسیحا کی راہ دیکھ رہی ہے جوان کو منزل کی راہ دکھا سکے ،جوان کے دکھ درد بانٹ سکے ،جوحق کی بات کرسکے جوعدل کو اسلوب بنائے، جو غربت کومٹائے غریبوں کونہیں ۔

ایساحکمران جس کے دور میں انسان پر حیات دشوار نہ ہو ۔ وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں غم و غصہ ،انتقام کے لفظ جن کی ڈکشنری میں نہیں ہوتے ایک ننھی سی کرن بھی اندھیرے کوشکست دے سکتی ہے ۔ معاف کرنے والے ،درگزر کرنے والے ،دوسروں کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے والے اجالے کے پیروکار ہوتے ہیں ۔ایسے لوگ معاشروں میں کم مگر حقیقی تبدیلی والے اور مثبت لوگ ہوتے ہیں یہی لوگ معاشروں میں تبدیلی لاتے ہیں ایسے لوگوں کو پیدا کرنے کے لئے ہمیں تعلیم کیساتھ ساتھ تربیت پر بھی زور دینا ہوگا ۔

سیاسی جماعتوں کو کارکنوں کی سیاسی ونظریاتی تربیت پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی مگر یہ کام تب ہواگر سیاسی جماعتیں ،واقعی ہی جماعتیں ہوں یہاں تو سیاسی جماعتیں کم پرائیویٹ کمپنیاں زیادہ ہیں ۔یہاں کارکنوں کی تربیت تو کجا خود ارکان پارلیمنٹ جوقوم کے لئے مثالی رہنماہوتے ہیں ان کی اپنی اخلاقی تربیت پر بھی بنیادی نوعیت کے سوال اٹھتے ہیں ۔

ٹاک شوز و پارلیمنٹ میں جس طر ح خواتین ممبران پر جملے کسے جاتے ہیں وانہیں تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس سے تولگتاہے کہ ان کو بنیادی اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔ اہل علم و دانش و ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اخلاقی ومعاشرتی بگاڑ کوسدھارنے کیلئے اقدامات کریں ۔فرد کی اصلاح سے ایک پرامن مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس لیئے ہم میں سے ہر شخص کو دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھانے سے پہلے خود اپنی اصلاح کرنی ہوگی اپنی خامیوں کودرست کرنے کے لئے محنت کرنی ہوگی ۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مثالی ہو تو اخلاقیات کے دامن کوتھامنا ہوگا ۔آج جو اخلاقی زوال ،بے راہ روی ،جنسی جرائم ،قتل وغارت گری ،ذخیرہ اندوزی اور سیاسی وسماجی حقوق کی پامالی ہمیں نظر آرہی ہے اسے دور کرنے کے لئے وہی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو محسن انسانیت ﷺ نے ریاست مدینہ میں اختیار کی تھی ۔سیاسی و ذاتی مفادات سے نکل کر اب ایک تحریک معاشرے میں اخلاقیات کی بہتری کے لئے بھی چلنی چاہئے بقول شاعر
صبح ہونی چاہئے اور رات ڈھلنی چاہئے
لیکن اس کے واسطے تحریک چلنی چاہئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :