فیض ،فکرانقلاب اور ہم

جمعرات 21 نومبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

فیض احمد فیض انقلابی وترقی پسند شاعر ہیں جن کی ایک ہتھیلی پر رومانیت کا چراغ فروزاں ہے تو دوسری ہتھیلی پر سماجیت کی مشعل جل رہی ہے ۔فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے اولین کارکنوں میں سے ہیں وہ لینن اور مارکسزم کے فلسفہ اور معتقدات کے پرخلوص مقلد تھے ۔فیض نے ساری زندگی ظلم ،بے انصافی اور جبرواستعداد کے خلاف جدوجہد کی مگر ان کا انقلابی فکر کیساتھ لہجہ غنائی بھی تھا ۔

گذشتہ دنوں فیض فیسٹیول میں نوجوان لڑکے ولڑکیوں کی ویڈیو دیکھی جو فلک شگاف نعرے لگاکر اس فکر کو پرموٹ کررہے ہیں جو فیض کا مشن تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک فیض فیسٹیول کرلینا اور جذباتی نعرے لگا کر اس انقلابی فکر کا حق ادا ہوجائے گا اور خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ ان معصوم نوجوانوں کے جذبات سے کوئی جاگیردار ،سرمایہ دار انقلاب و سوشلزم کا علمبردار بن کر کھلواڑ کرے گا ۔

(جاری ہے)

فیض کی شاعری میں جو جذبہ انقلاب ہے وہ کہاں گم ہوگیا ہے
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
فیض نے تو جبرواستقلال کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی ترجمانی کی اور دنیامیں جہاں کہیں خیروامن کی صدا بلند ہوئی اس کا ساتھ دیا ۔فیض کی مجموعی شاعری میں سیاست کا رنگ ،انسانیت سے محبت ،دوسروں کادرد ،زندگی کی بنیادی ضروریات ،غربت محرومی کا کرب لئے ہوئے ہے
عاجزی سیکھی ،غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس وحرمان کے ،دکھ درد کے معنی سیکھے
مگر اب اس فکر کو عملی شکلی دینے کے لئے ہم نے کیا کردار ادا کیا وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا کردار کہاں ہے ؟ بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات کوئی بھی دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔

امرتسر میں فیض صاحب کی ملاقات ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر سے ہوئی ۔اور امر تسر میں ہی قیام کے دوران فیض صاحب نے مارکسزم کا تفصیلی مطالعہ کیا اور ترقی پسند رجحانات سے اپنی فکر اور شاعری کی آبیاری کی
ایک دور میں انجمن ترقی پسند مصنفین میں سجاد ظہیر ،ملک راج آنند ،پریم چند،رانبدناتھ ،ٹیگوز،احمد ندیم قاسمی ،فیض احمد فیض ،احمد فراز،کرشن چندر ،عصمت چغتائی ،امریتہ پریتم ،احمد علی تھے آج اس پائے کے مصنفین کیوں منظرعام پرنہیں آرہے؟ ۔

وہ کیا وجوہات ہیں کہ اس فکر آبیاری اس طرح نہیں ہورہی جس طرح ان لوگوں نے کی تھی ؟ میرے یہ تلخ سوالات بہت سے لوگوں کو ُبر ے لگیں گے مگر ہمیں تو فیض احمد فیض نے سکھایا ہے
 ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے
جو دل پر گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
انقلاب و حسن وعشق کی وارداتیں فیض کی شاعری کا جز ہیں ۔امریتا پریتم کے سوال کے جواب میں بھی فیض صاحب نے کہاتھا
لے ہن تینوں دساں ۔

میں پہلا عشق اٹھارہ ورہیاں دی عمر وچ کیتا سی
فیض کوچہ یار کی رنگینوں سے بھی لطف اندوز ہوئے اور پھر یہ بھی کہا
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جوکوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
گو فیض صاحب نے بھرپور زندگی گزاری بطور شاعر،نثرنگار،صحافی ،تجزیہ نگار، استاد، دانشور،ثقافتی کارکن اور مفکر کی حیثیت سے سب سے بڑھ کر ایک ایسے انسان کی حیثیت سے جس نے اپنے عہد پر بہت اثرات مرتب کئیے ہیں ۔

آج فیض کی فکر اور ترقی پسند ہونے کے دعویدار عملی میدان میں کیا اثرات مرتب کررہے ہیں صرف باتیں کرنے اور نعرے لگانے سے انقلاب آجائے گا؟ ۔اگر صرف نعرے لگانے سے انقلاب آنا ہوتا تو کب کا آچکا ہوتا ۔فیض نے اپنی شاعری میں سیاسی و طبقاتی جدوجہد کو نئے معنی پہنا کر نئی علامتیں تخلیق کیں ۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ تو سحر نہیں
مگر آج جب ہم ہر طرف دیکھتے ہیں تو مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے امید کی کرن کہیں نظر نہیں آتی یہ امید کی کرن دیکھانا کس کا کام ہے ؟ کون بنے گا اُمید انقلاب ؟
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
گو کہ فیض کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ ادھوری ہے ۔

شاعر انقلاب آٹھ کتابوں کے مصنف ،درجنوں مشہور نغمات کے خالق ہیں ۔نقش فرہادی ،سروادی سینا ،دست صبا،شام شہریاراں،مرے دل مرے مسافر ،نسخہ ہائے وفا (کلیات) ،زندان نامہ دست تہ سنگ ان کی کتابیں ہیں ۔مجھ سے پہلی سی محبت ،رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی اور گلوں رنگ بھرے باد نوبہار چلے جیسے یادگار نغمات جو آج بھی زبان زد عام ہیں ۔

فیض کی شاعری کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے سب سے زیادہ روس میں آپ کی شاعری کو سراہا گیا ۔ روسی ادیب الیگزینڈر سرکوف نے تو فیض صاحب کے ایام اسیری کی شاعری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاتھا ”زندان کی دیواروں میں سے بھی ان کے حوصلہ مند دل سے وہ نغمے بے تاب ہوکر نکلتے رہے جو عوام زندگی اور مادروطن کی محبت سے لبریز تھے ان کے نغمات کے پیروں کی سرسراہٹ پاکستان اور متعدد دوسرے ممالک کی سرزمین پر سنائی دیتی رہی اور لاکھوں انسانوں کے دلوں کو گرماتی رہی “ فیض صاحب کی شاعری کا پہلاباقاعدہ انگریزی ترجمہ پروفیسر وکٹر کیرنن نے ”پوئمس بائی فیض ‘ کے نام سے کیا تھا ۔

پاکستان میں یہ پہلی بار 1962 ء میں لاہور سے شائع ہوئی جس میں فیض صاحب کی انتالیس نظموں کے تراجم شامل تھے۔
فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی بھی بڑے آن بان سے کی ۔پاکستان ٹائم ،امروز ،لیل و نہار میں کام کیا ۔انہوں نے اپنے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف نہیں لکھا بلکہ امن ،آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی ۔اقتدار کی جانب سے جب بھی شہری آزادیوں پر حملہ ہوا تو فیض نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور مزاحمت کا استعارہ بنے اور اسی دور میں معرکتہ الآرا ”صبح آزادی “ جیسی نظمیں بھی لکھی ہیں ۔

فیض احمد فیض نے کہاتھا
ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیان ٹھہری ہے
انہیں سیاسی جدوجہد کی متعدد تحریکوں کا حصہ ہونے پر ملک کے آمروں نے کئی بار جیل بھیجا لیکن فیض کی فکر پر پہرے نہ لگائے جاسکے ۔گرفتاری کے دوران بھی فیض نے انقلابی خیالات کا اظہار کیا
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھووہ وقت قریب آن پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
راولپنڈی سازش کیس میں آپکو 9 مارچ 1951 کو گرفتار کیا گیا چار سال زندان میں ہی گزارے اسی نے فیض کو مشہور شاعر بنا دیا
متاح لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زبان پر مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زبان میں نے
فیض براعظم ایشیا کے واحد شاعر ہیں جنہیں روس کی جانب سے لینن امن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔

قید وبند کی صعوبتیں نے فیض کی شاعری اور فکر کو مزید نکھارا
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراٹھا کے چلے
فیض کے زمانہ قید کی یاد ہیں جنہوں نے فیض کو دنیائے ادب کا تابندہ ستارہ بنایا ۔مگر آج فیض فیسٹیول منانے والوں سے بہت سے سوالات کرنے کو دل کررہاہے کہ فیض فیسٹیول میں آرٹ ،ادب ،فلم ،ڈرامہ ،شاعری ،سیاست،اور سماجی مسائل ،یوتھ کے مسائل تو ڈسکس ہوتے ہیں مگر فیض فیسٹیول میں فکر فیض صحیح معنوں میں زیربحث نہیں آتی ۔

بقول فیض کی ایک مداح فیض فیسٹیول میں سب کچھ ہے بس فیض کہیں نہیں ہے ۔مختصرا یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ فیض کی بات کرنے والوں اپنے اندر فیض سا جذبہ بھی پیدا کریں ۔مگر گھٹن کے اس ماحول میں یہ فیسٹیول ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے ۔ظلم و جبر کے خلاف اگر آواز بلند کرنے میں اگر عار محسوس ہوتی ہے تو قلم کو اپنا ہتھیار بنالیجئے کہ دنیامیں بہت سے انقلاب قلم و تحریر سے ہی برپا ہوئے ہیں ۔

انقلاب کی بات کرنے والوں کو اپنی زندگیوں میں بھی انقلابی فکر کو اپنانا ہوگا ۔انقلاب کے دعوے کرنے تو آسان ہیں مگر اس راستے میں آنے والی سختیوں کو جھیلنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے ۔اندھیروں کی شکایت کرنا تو آسان ہے مگر اس اندھیرے کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنا مشکل کام ہے ۔یہ مشکل کام ہم نوجوانوں کو کرنا ہے اگر آج ہم عہد کرلیں تو امید کی کرن آج بھی روشن ہوسکتی ہے ۔


صبا نے پھر در زندان پہ آکے دستک دی
 سحر قریب ہے دل سے کہونہ گھبرائے
ویسے بھی اُمید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے ۔فیض احمد فیض تو 1984 میں خالق حقیقی سے جاملے مگر ان کے لکھے اشعار کی گونج آج بھی تابندہ ہے
ہم دیکھیں گے لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کے جس کا وعدہ تھا
جو لوح ازل میں لکھا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :