آؤ اختلاف رائے پر اتفاق کرلیں!!

جمعرات 9 جنوری 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

پاکستانی سماج کوشدت پسندی کے ساتھ ساتھ عدم برداشت ،عدم رواداری اورمذہبی وسماجی ہم آہنگی بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ہمیں ایسا معاشرہ چاہئے جہاں پر We need to agree to disagreeمگرپاکستانی سماج ،مذہبی ،معاشرتی ،معاشی ،ثقافتی ،لسانی اور دیگر نوع کے مختلف تعصبات میں لتھڑا ہوا سماج ہے ۔قدامت پرست اور لبرل کی تقسیم ، برادریوں میں بٹے ہوئے ،خاندان ،مذہب ،سکول کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں ہم میں وحدت یا یگانگت کا کوئی پہلونظر آتا ہے ۔

تقسیم در تقسیم اور ہر تقسیم کے ساتھ رویوں میں عدم برداشت بڑھتی جارہی ہے ۔معاشرے میں اختلاف رائے کودیکھتے ہوئے جون ایلیا نے کیا خوب کہاتھا” کہ آؤ اختلاف رائے پر اتفاق کرلیں “۔اعلی ایوانوں سے لیکر جھونپڑیوں تک عدم برداشت ،تشدد،نفسانفسی ،الزام تراشی دیگر منفی رویوں کوتیزی سے فروغ مل رہا ہے جس سے معاشرتی توازن بگڑ چکاہے اور مزید بگڑ نے کاخدشہ ہے ۔

(جاری ہے)

عدم برداشت کے دوحالیہ واقعات جن پر سوشل میڈیامیں بہت زیادہ بحث ہوئی جس میں ایک ویڈیو میں طنزسے شروع ہونے والی ڈاکٹرز اور وکلاء کی لڑائی کئی انسانی جانوں کونگل گئی یہ عدم برداشت اور انا کی تسکین کا ہی شاخسانہ تھا ۔دوسرا واقعہ فواد چوہدری وفاقی وزیر سائنس کا اینکر مبشر لقمان کو تھپڑ مارنا تھا یہ تنقید برداشت نہ کرنے اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی ایک مثال ہے اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہمیں روز سننے اور دیکھنے کوملتے ہیں ۔

بے ہنگم ٹریفک ،اپنی لائین کی پابندی نہ کرنا ،معمولی سی بات پر توں تکرار ،گالم گلوچ اور پھر لڑائی جھگڑا ،قتل وغارت سب ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ارباب علم ودانش کے سامنے سوال تویہ بھی ہے کہ معاشرے میں تحمل مزاجی ،برداشت ،رواداری ،انصاف اور عفوودرگزر کے رجحانات کیوں نہیں پنپ رہے؟ جس کی وجہ سے شدت پسندی ،تشدد ،لاقانونیت ،عدم برداشت و دیگر واقعات کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے ۔

سیاسی جماعتوں کے انداز سیاست نے تعصبات کو خوب ابھارا ہے ۔غریب وکچلے ہوئے طبقات ،طبقہ امرا کے لئے دل میں تعصبات رکھتے ہیں ۔مذہبی عقائد وفرقہ واریت بھی عدم رواداری کی ایک بڑی وجہ ہے ،عدم رواداری معاشی ناانصافی سے بھی پھوٹتی ہے ۔ذہنی ومعاشی افلاس زدہ افراد سماجی پس ماندگی کا پتہ دیتے ہیں،ترقی کا نہیں ۔غلبے اور تسلط کی خواہش فرد میں بھی ہوتی ہے اور قوم میں بھی ۔

مذہبی رویوں میں فکری تسلط اور اپنا دائرہ اثربڑھانے کی کوشش بعض حدود سے تجاوز ہے ۔بحث واختلاف کرتے ہوئے ہم آداب بھی پامال کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں مباحثے کا رواج بھی ختم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہر شخص اپنے نظریات کو حق اور سچ ،جبکہ دوسرے کے نظریات کوباطل اور غلط سمجھتا ہے ۔ جلیل حیدر لاشاری نے شعر میں اپنے جذبات کی عکاسی یوں کی ہے
 جانے کب کون کسے ماردے کافر کہہ کے
شہر کاشہر مسلمان ہوا پھرتاہے
معاشرے کے قیام کی بنیادی غرض وغایت امن ،قبولیت ،بقائے باہمی اور سماجی ہم آہنگی وترقی مقصودہیں ،سماجی ترقی کے لئے امن اشدضروری ہے ۔

برٹرینڈر آرتھر ولیمزر سل (BertrandRussell)اپنی کتاب ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی
 (History of western Philosophy)میں کہتا ہے کہ اچھی اور بہترین زندگی وہ ہے جس میں محبت ،انسان دوستی ،تعاون اور برداشت ہے ،اچھی زندگی وہ ہے جس میں رقص ،جمالیاتی ذوق وشوق ہے ۔بہترین زندگی وہ ہے جس میں انسانیت ہے ۔وہ کہتا ہے کمال ہے وہ زندگی جس میں علم ،فکر دانش ،بصیرت اور شعور ہے ۔

وہ کہتا ہے اس دنیا کی انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ بیوقوفوں اور جاہلوں کو اپنی جہالت پر یقین ہے ۔جبکہ دنیا کے تمام انسان شکوک وشہبات سے لبریز ہیں ،اس لئے انسانیت کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی تعاون کافقدان ہے ۔رسل کے نزدیک تعاون ہی وہ عمل ہے جواس دنیا انسانیت کو زیادہ سے زیادہ عرصہ زندہ رکھ سکتا ہے ۔علامہ اقبال جیسا جلیل القدر مفکر،فلسفی وشاعر جب اپنے خطبات The Reconstructions of Religious Thought in Islam مرتب کرتا ہے اور اس کا دیباچہ لکھتا ہے تووہ اس کوقبول کرتاہے کہ فلسفیانہ غوروفکر میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی ۔

میں جوبات کہہ رہا ہوں یہ بہت ممکن ہے آنے والے ادوار میں یہ ترک قرار پائے ۔ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھنے کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مذہب ،کلچر،نظریہ اور سوچ کوبرداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ان کے حقوق کو تحفظ فراہم کررہے ہیں ۔ہمار ادین اسلام بھی ہمیں امن وسلامتی،محبت ورواداری،بقائے باہمی ،احترام آدمیت اور بھائی چارے کادرس دیتا ہے ۔

جب ہادی برحق حضرت محمد ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ (اس وقت یثرب )میں تشریف لائے تویہود کے بنونضیر،بنوقریضہ اور بنوقنیقاع تین مشہور قبیلے اور انصار مدینہ کے دو قبائل اوس اور خزرج آبادتھے ۔ آپﷺ نے ان سے بات چیت کی اور معاہدہ کیا جس کو میثاق مدینہ کہاجاتا ہے ۔63 آرٹیکلز پر مشتمل میثاق مدینہ ایک روایتی معاہدہ نہیں تھابلکہ یہ ایک سماجی ،دفاعی ،فلاحی اور عوامی میثاق تھا۔

رحمت العالمین ﷺ نے 622 ء میں میثاق مدینہ کے ذریعے پر امن فلاحی معاشرے کا نظریہ اور عملی ثبوت دیا۔بقائے باہمی اور امن کے فروغ کی کاوش ،حکمت ودانش کی تاریخی دستاویز اور بہترین مثال صلح حدیبیہ ہے ۔سورة البقرہ میں ارشاد باری تعالی کاترجمہ یہ ہے اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا ۔گویا امت معتدل بنایا ۔اسلام افراط وتفریط سے پاک نظام اعتدال ہے ۔

مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یونان کے مشہور شہر ایتھنزمیں 428 ق م پیدا ہونے والے عظیم فلسفی افلاطون (PLATO)نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب جمہوریہThe Republic) (میں مثالی ریاست کا جونظریہ ونقشہ پیش کیاہے اس کی بنیاد بھی نظام عدل پر ہے اور اس میں امن وامان اور سماجی حرکیات کوخاص اہمیت دی گئی ہے ۔ 260 ہجری کوترکستان میں پیدا ہونے والے ابو نصر فارابی (Pharabious) جنہیں ارسطو کے بعد دوسرا بڑا فلسفی یعنی معلم ثانی بھی کہا جاتا ہے اپنی تصنیف ”ارا ء اہل المدینتہ الفاضلہ “میں ایک مثالی شہر کا نقشہ پیش کیا ہے ۔

فارابی بھی اپنی ریاست کی بنیاد عدل پر رکھتا ہے اور اور ریاست کو ایک نامیاتی کل (Organic whole) تصور کرتا ہے ،جس کے تمام افراد ایک جسم واحد کی طرح باہم مربوط ہیں ۔فارابی اپنی معیاری مملکت کو”مدیسہ الفاضلیہ “ اور معیاری مملکت کے مقابلے میں غیر معیاری مملکت ”مدیسہ الجاہلیہ “کا تصور بھی پیش کرتاہے ۔اس کے خیال میں غیر معیاری مملکت جسے وہ ”مدیسہ اللتغلب “کا نام دیتا ہے ،اس کے نزدیک بداعمال ریاست کے باشندوں کے عمل غیر معیاری ہوتے ہیں۔

گویامثالی ریاست وہی ہوتی ہے جہاں سیاسی آزادی ،اقتصادی خوشحالی ،سماجی انصاف اور مذہبی برداشت ہو۔تعصب تنگ نظری کی بنیاد بنتا ہے یہی تنگ نظری تخلیقی عمل کی دشمن ہے ۔پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ بھی ہے کہ اس کی سماجی زندگی میں جارحیت پسندی کاعنصر نمایاں ہے۔سیاسی قائدین کی تقرریں ،مذہبی قائدین کی تقریریں جارحیت پر مبنی ہوتی ہیں ۔

فرقہ واریت کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا بھی ایک مسئلہ ہے ۔قتیل شفائی نے اس کی عکاسی یوں کی ہے
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
معاشرے میں باہمی احترام کافقدان فرقہ واریت وعدم برداشت کی شدت بڑھا دیتا ہے ۔ہمارے ہاں ایک اور مسئلہ ”انا“ کا ہے جس کی وجہ سے انسان کسی دوسرے کی سننے یا سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا ۔

کہا جاتا ہے کہ اس نے انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے ؟اس کی انا کی وجہ سے معاملہ گھمبیر ہوا ؟یہ انا کیا ہوتی ہے ؟اناہی دراصل خود پسندی وخود فریبی ہے ۔علمی حوالوں سے استوار معاشرے انا جیسے لفظوں سے زیادہ آشنا نہیں ہوتے ۔یہی انا ہی ہوتی ہے جومعاملہ کوپچیدہ کرکے تنازع میں بگاڑاور شدت پیدا کرتی ہے ۔بدقسمتی سے ان مسائل کے حل کے لئے ہمارا نظام تعلیم ،نصاب اور تعلیمی ادارے اپنا کردار ادا نہیں کررہے ،نصاب متوازن نہیں ہے ،استاد بھی متحرک نہیں ہیں ،تعلیم میں تربیت کافقدان ہے ۔

ہمارے ہاںRational Thinking نہیں ہے چیزوں کومنطقی استدلال سے سمجھنے کی ہم میں تربیت نہیں ہے ۔فلسفہ ،ادب ،شاعری اور دیگر فنون لطیفہ کی طرف طالب علموں کومائل کریں توان کامزاج بھی منطقی ہوگا اور ان کے اندر لطافت بھی پیدا ہوگی۔ سیاسی وسماجی ناانصافی اور معاشی گیپ ومختلف طبقات کے بارے میں ریاست کا امتیازی سلوک بھی عدم برداشت کی ایک اہم وجہ ہے ۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کے تمام چارٹرزخواہ وہ انسانی حقوق کا چارٹر ہو،جنیوا کنونشن ہویا پھر نسلی ولسانی ،صنفی ومذہبی امتیازات کو ختم کرنے کے معاہدے ہوں ۔پاکستان نے عالمی برادری کے ساتھ وعدہ کیا ہے ان قوانین کوپوری طرح نافذ کیا جائے گااور امتیازات کوختم کیاجائے گا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے ان امتیازات کوختم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئیے ہیں ؟ ہمیں سائیکالوجیکل فریم ورک کا ازسرنو جائزہ لیناہوگا اور تعلیمی نصاب میں برداشت جیسے اہم موضوعات کوشامل کرنا ہوگا ۔

تعلیمی اداروں میں مکالمہ کا کلچر پروان چڑھانا ہوگا اور ایسی سرگرمیوں کو پروان چڑھاناہوگا جس سے طلباء میں ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کا رویہ پروان چڑھ سکے ۔تعلیمی ادارے ،جامعات اور دینی مدارس برداشت ،تحمل کے رجحان کو پروان چڑھانے میں اہم کردار اداکرسکتے ہیں ۔ہمیں طلبہ کو روادری کا یہ مفہوم بھی سمجھانا ہوگا کہ آپ ایسے لوگوں کوبرداشت کریں ،جنہیں آپ جسمانی ،لسانی،مذہبی،اور سیاسی بنیادوں پر ناپسند کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ ہمیں فرقہ واریت ،جاگیرداری ،موروثی سیاست ،رجعت پسندی،ملائیت ،آمریت ،کساد بازاری کامکمل خاتمہ اورعدل وانصاف کانظام قائم کرناہوگا۔علاوہ ازیں جذبہ احترام ،معاشی انصاف ،پسماندہ طبقے کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیساتھ ساتھ نوجوانوں کی صلاحیتوں کوپروان چڑھانے کے لئے اقدامات کرنے ہونگے تاکہ ان کی صلاحیتوں کومثبت استعمال اور تعمیری سرگرمیوں پر لگایا جاسکے، ان کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں ۔

مذہبی ہم آہنگی کوفروغ ،نفرت کے جذبات کی حوصلہ شکنی ،جذبات کی جگہ عقلی رویوں کو فروغ دینا،متعصبانہ رویوں کو ختم کرنا اور مذہبی آزادی کی گنجائش پیدا کرنا ،مکالمے کے لئے ماحول سازگار بنانا،یکساں نصاب تعلیم میں رواداری کے جذبات کو شامل کرنا،فکری پسماندگی کوختم کرنے سے سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیاجاسکتا ہے ۔تنگ نظری کوختم کرنا،مذہبی جنونیت کو ختم کرنا ،لچک دار رویہ پیدا کرنا ،محبت و مروت ،انسان دوستی ،عقل ودانش کا قیام ،خاندانی منصوبہ بندی ،تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی ،عوامی شعور اور کردار اجاگر کرنابہت ضروری ہیں ۔

پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کیساتھ ساتھ سوشل میڈیاپراختلاف فکر ونظر کوپروان چڑھاتے ہوئے لوگوں کو مدلل جواب دینے کی ترغیب دینااور تربیت کااہتمام کرنا ہوگا ۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی کوفروغ دینے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز اپنا موثر کردار ادا کریں بقول بشیر بدر
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کردو نفرتیں
آج انسان کومحبت کی ضرورت ہے بہت

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :