ذرا نم ہوتو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ثاقی

ہفتہ 21 ستمبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

14 ستمبر 2019 پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک مایوس کن دن تھا۔ یہ وہ دن تھا جب ہماری سیاست پروفیسرڈاکٹر محمدطاہرالقادری جیسی عظیم اور ہمہ جہت شخصیت کی خدمات سے یکسرمحروم ہوگئی۔ پوری دنیا میں جبکہ آپ کی احیائے دین, اصلاح احوالِ امہ کیلئے گرانقدر خدمات, آپ کی علمی روحانی, تعلیمی اورفلاحی خدمات, سیاسی بصیرت اور اسلامی امورِمعاشیات پر گہری نظر کا اعتراف کیاجاتاہے۔

آپ ایک بہترین ماہرِقانون, اسلامی فقہ کے ماہر اورایک عظیم مصنف بھی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے تباہ کن سیاسی اور معاشی حالات میں ڈاکٹر صاحب کا سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کسی عظیم سانحے سے کم نہیں ہے۔یہ ہمارے ملک اور قوم کی سراسر بدقسمتی ہے کہ ہم ایک گوہرِنایاب سے محروم ہوگئے۔ مگرہمارے ہاں غالب اکثریت اس شعور, فہم اور ادراک سے محروم ہے اور انہیں احساس تک نہیں کہ انہوں کیاکچھ کھویاہے۔

(جاری ہے)


اگرہمارا شعور بیدار ہوتاتو ہمیں پچھتاوا ہوتا, ندامت ہوتی, احساس ہوتا۔ مگرافسوس ہمارے بے حس معاشر ے میں اہلِ علم و دانش کی یکسرکوئی قدر نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری 39 سال ہمیں یہ سمجھاتے رہے کہ پاکستان کا مسئلہ اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے والے چہرے بدلنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ موجودہ فرسودہ نظام کو مکمل طورپر بدلنے سے حل ہوگا۔

وہ ہمیں باور کراتے رہے کہ یہ گونگا بہرہ اور اپاہج نظام کبھی پاکستان کو خوشحالی کے راستے پر چلنے نہیں دے گا۔ وہ کہاکرتے تھے کہ سب سے پہلے دھاندلی زدہ انتخابی نظام کو بدلنے کیلئے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق امیدواروں کی اسکروٹنی کی جائے تاکہ صرف صادق اور امین افراد ہی میرٹ کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمان میں عوامی نمائندگی کرسکیں اور بدعنوان عناصر کو انتخابی نظام سے باہر کیا جاسکے۔

وہ چاہتے تھے کہ ایک عام شہری بھی میرٹ پر عوامی نمائندگی کیلئے پارلیمان میں پہنچ سکے, اور انتخابی اخراجات کا تخمینہ کنٹرول کیاجاناچاہیے۔ وہ سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا تدارک چاہتے تھے۔ وہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے مقامی حکومتوں کے نظام کو مئوثر بنانے کی حمایت کی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نئے اور چھوٹے صوبوں کے قیام کے پرزور حامی تھے۔

وہ ملک میں اسلامی نظامِ معیشت،اصول تجارت اور بلاسود بینکاری کاخاکہ دیناچاہتے تھے تاکہ ملکی معیشت میں سدھارآئے۔ وہ عالمی مالیاتی اداروں سے سودی قرضے لینے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ ملک کو کرپشن فری بنانے کیلئے کڑے احتساب کے خواہاں تھے۔ وہ نظامِ عدل،قانونی ڈھانچے،پولیس،نظام تعلیم،صحت، زراعت،صنعت وتجارت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں اصلاحات کے خواہاں تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ انتخابی سیاست کا حصہ کیوں نہیں بننا چاہتے تھے تو اس کا مختصرترین جواب یہ ہے کہ انہوں نے انتخابی اصلاحات کا جو مطالبہ کیا تھاوہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے دھاندلی زدہ انتخابی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ معزز قارئین کا اگلا سوال یہ ہوگاکہ انہوں نے "انقلاب " کا نعرہ کیوں لگایا؟؟؟ تو اس کا سب سے مختصر جواب یہ ہے کہ وہ اس فرسودہ نظام کا خاتمہ اور اصلاحات چاہتے تھے۔

اگلا سوال ہوگا کہ دھرنا کیوں ختم کیا؟؟؟ تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ وہ کشت و خون نہیں چاہتے تھے, لہذٰا پرامن رہے۔ اگلا سوال ہوگاکہ وہ ماڈل ٹاون کیس کیلئے کیوں کچھ نہیں کرتے؟ اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ ماڈل ٹاون کیس کی تفتیش, ملزمان کی نشاندہی اور ان کے خلاف ثبوت فراہم کرنا سرکاری انتظامیہ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ جبکہ عدالت میں مقدمے کی پیروی پاکستان عوامی تحریک گزشتہ کئی سالوں سے کررہی ہے اور وکلاء کی فیسیں شہدائے ماڈل ٹاون کی لواحقین کی بجائے پا کستان عوامی تحریک خود ادا کرتی ہے۔

یہ ہے پروفیسرڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بھرپور غلطیوں اور کوتاہیوں کی وہ فہرست جس کے باعث پاکستانی سیاست میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ کوئی کینیڈین شہریت کولیکر تنقیدکرتا رہا۔ تو کوئی عالمِ دین قراردیکرسیاست سیدوررہنے کے مشورے دیتارہا۔ یاپھرشایدمخالف پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکرہم مسلکی اختلافات میں اتنے آگے نکل گئے کہ ہم پروفیسرڈاکٹر محمدطاہرالقادری کی شخصیت کی قائدانہ خوبیوں،انتظامی صلاحیتوں اور نوربصیرت سے استفادہ نہ کرسکے۔

آج نقصان کس کا ہوا؟؟؟ ہرے نادان لوگو!!! خسارے سے ہمارے ملک و قوم کے حصے میں آنیوالا ہیں۔ ہم نے گھاٹے کاسوداکیا۔ اس کااحساس مستقبل قریب میں ہونا شروع ہوگااوراس کا یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ آنے والی نسلیں بھی ہمیں ملامت کریں گی اورتاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی۔ ہم تو 14 بے گناہ شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین کوانصاف تک نہیں دے سکے۔

یہ صلہ دیا ہم نے پروفیسرڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کی 39 سالہ مخلصانہ جدوجہدکا,جوانہوں نے ہمارامستقبل سنوارنے کیلئے کی ہے۔ شہدائے ماڈل ٹاون کا خونِ ناحق آج بھی انصاف کا منتظرہے۔
شا ید اب بھی وقت ہے اگر ہم سنجیدگی سے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے انقلابی نظریات اپنالیں تو ہمیں اس زبوں حالی سے نجات مل سکتی ہے۔ یہ یاد رکھیے شخصیات تو چلی جاتی ہیں مگر نظریات دائمی ہوتے ہیں۔

منہاج القرآن کے کارکنان کے لیے پیغام ہے کہ آپ نے مایوس نہیں ہونا بلکہ اپنے عظیم قائد کے مشن کو جاری رکھنا ہے۔ اس صبروتحمل, استقامت,مستقل مزاجی, خلوص نیت اور انتھک محنت کی ضرورت ہے۔ کوئی چاہے کتنا ہی بددل اورمایوس کیوں نہ کرے, آپ نے ہمت کبھی نہیں ہارنی ہے۔ آپ راہِ حق پر ہیں اور آپ نے ثابت قدم رہنا ہے۔ آپ کے عظیم قائد کے نظریات ہمیشہ آپ کی راہنمائی کرتے رہیں گے۔

تحریک منہاج القرآن ایک مذہبی اصلاحی تحریک ہے, لہذٰا آپ اپنے سیاسی پلیٹ فارم " پاکستان عوامی تحریک" کو بھی فعال بنائیں۔ آپ " پاکستان عوامی تحریک " کیلئے میرٹ پر قیادت کا انتخاب کریں,کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ثاقی "۔ شخصیات کی بجائے ادارے مضبوط بنانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ " پاکستان عوامی تحریک " کو" موروثیت " پر مبنی سیاسی کلچر میں "میرٹ" کے کلچرکو فروغ دے گی کیونکہ یہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے سیاسی نظریات سے عین مطابق ہے۔ آخرمیں پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کی ملک و قوم اور امت مسلمہ کیلئے شاندار خدمات پرآپ کوبھرپورخراج تحسین پیش کرتی ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :