عدم برداشت کیوں ؟؟؟

ہفتہ 16 نومبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

پاکستانی معاشرے میں جو چیز ہماری  روزمرّہ زندگی کو متاثر کرتی ہے , وہ ہے " عدم برداشت " ۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر شخص اپنی ذاتی رائے میں نہ صرف آزاد ہوتا ہے بلکہ وہ اجتماعی طورپر بھی کسی مخصوص فرقے یا سیاسی نظریے کا پیروکار ہوسکتا ہے۔ ہم دوسروں کو نہ تو سننا چاہتے ہیں اور نہ سمجھنا !!! اسی عدم برداشت نے فرقہ وارانہ اور سیاسی نظریاتی اختلافات کو زہر قاتل بنا دیا ہے۔

ہر فرقے کا فرد دوسرے سے نفرت کرتا ہے۔ ہر سیاسی کارکن اپنے سیاسی حریفوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آپ کی اگلے بندے سے کوئی ذاتی مخاصمت نہیں ہوتی ہے۔ یہ ہمارے مذہبی پیشوا اور سیاسی قائدین ہی ہوتے ہیں جو ہمیں تقسیم کرتے ہیں ۔ کوئی مذہب کے نام شیعہ اور سنی تفریق کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے تو کوئی حکومت اور حزبِ اختلاف کی باہم سیاسی رقابت کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر دیکھا جائے تو یہ شدتیں اور نفرتیں جب اپنی انتہا پر پہنچتی ہیں تو قوموں کو کبھی کبھی خون کا خراج بھی دینا پڑتا ہے اور گلی محلوں , کوچوں اور شاہراہوں پر مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر ماردھاڑ ہوتی ہے اور گلے کٹتے ہیں ۔ ہمارے علماء جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام کو مذہب کے نام پر باآسانی مشتعل کیا جاسکتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مذہبی راہنما مذہبی عقائد کو سیاست کےلیے استعمال کرتے ہیں ۔

اس کے انجام کے طورپر اکثرو بیشتر سیاسی منظرنامے پر بحران جنم لیتے رہتے ہیں ۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ علماء و مشائخ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں مذہب کارڈ کھیل کر سیاست سے گریز کریں ۔ اور قومی سیاسی دھارے میں سیاسی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کریں ۔ پاکستان کا کوئی بھی شہری خواہ وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو , قومی سیاست میں اپناکردار ادا کرنے کا آئینی حق رکھتا ہے۔

اسی طرح لبرلز کو بھی مشورہ ہے کہ کم از کم کسی شخص کا محض اس وجہ سے مذاق نہ اڑائیں کہ وہ دینی مزاج رکھتاہے  , یہ مناسب نہیں  ہے۔  
  ایسے علماء کی تمام تر افرادی قوت دینی مدارس کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ دینی مدارس کے یہ غریب طلباء اتنے معصوم ہوتے ہیں کہ انہیں سیاسی مقاصد کےلیے ورغلا کر استعمال کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت " مدرسہ ریفارمز " کا جو فیصلہ کیا , وہ بہت پہلے کر لیا جانا چاہیے تھا۔

اسی طرح ہماری سیاسی جماعتیں , سیاسی قیادت اور کارکنان میں بھی عدم برداشت کے شدید رحجانات پائے جاتے ہیں ۔ اس کا سب سے زیادہ اظہار انتخابات کے دنوں میں ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور لوگ باہم دست و گریبان نظر آتے ہیں , کہیں گولی چل جانا بھی خارج از امکان نہیں ہوتا ہے۔ مگر ٹھہرئیے !!! ہمارے سیاسی قائدین خود آپس میں کیسے تعلقات رکھتے ہیں ؟؟؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے صرف سیاسی حریف ہوتے ہیں نہ کہ ذاتی دشمن !!! اگر آج آپ کے حلقے کا ایم این اے یا ایم پی اے کسی ایک سیاسی جماعت میں  ہےتو خارج از امکان نہیں کہ اگلے عام انتخابات میں وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہر آنے والی نئ حکومت میں کم و بیش وہی لوگ ہوتے ہیں جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہوتے ہیں ۔ جب بڑی مچھلیاں اپنی سیاسی وفاداریاں بدل رہی  ہوتی ہیں تو کیا انہیں علم نہیں ہوتا کہ وہ ماضی کے سیاسی حریفوں سے ہاتھ ملانے والے ہیں ؟؟؟ سیاست میں کوئی مستقل حریف یا حلیف نہیں رہ سکتاہے ۔ ایسے نظریاتی اور بااصول لوگوں کی پاکستانی سیاست میں فی الوقت کوئی جگہ نہیں ہے۔

تو پھر کارکنان سے کوئی یہ پوچھے کہ بھائی آپ سر دھڑ کی بازی کس لیے لگا رہے ہیں ؟؟؟ دراصل ہمارے سیاست دانوں نے کبھی اپنے کارکنان کی سیاسی تربیت پر کبھی توجہ ہی نہیں دی ۔ یہ سیاسی راہنماؤں کی اولین ذمہ داری ہے کہ آپ اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات کو پروان چڑھائیں ۔ آپ کارکنان کی اخلاقی تربیت کریں تاکہ پاکستانی سیاست میں برداشت کا کلچر پروان چڑھ سکے ۔
پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں وہ جمہوری اقدار پروان نہیں چڑھ سکیں جو صبر و تحمل اور برداشت سکھاتی ہیں ۔ جمہوری معاشروں میں آوازوں کو دبایا اور کچلا نہیں جاتا بلکہ تنقید کو برداشت کیا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :