قتل صرف قتل ہوتاہے !!!

بدھ 19 فروری 2020

Ayesha Noor

عائشہ نور

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے بجا فرمایا کہ " قتل صرف قتل ہوتاہے , اہم یا غیر اہم نہیں " مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 17 جون 2014 کو رونما ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاون کا معاملہ غالباً اہم   نہیں سمجھاگیا جس کی   وجہ سےتاحال سانحے کے ذمہ داران کا تعین کرکے انہیں انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایاجاسکا۔ سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کےلیے قائم ہونے والی نئی جے آئی ٹی کو جو کہ اپنا 80 فیصد کام مکمل کرچکی تھی , اسے کام روکنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست نمٹاتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کو 3 ماہ کے اندر مقدمے کا فیصلہ کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

یہ فیصلہ بظاہر خوش آئند ہے کہ مقدمے کا فیصلہ جلد ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالت عالیہ اس کا فیصلہ کن تحقیقات کی بنیاد پر سنائے گی ؟؟؟ کیا اسی جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں جوکہ اس حکومت نے بنائی تھی جس پر شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین نے سانحے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا؟؟؟ لہٰذا یہ تو طےہےکہ  پہلی جے آئی ٹی مکمل طورپر جانبدار تھی ۔

خرم نوازگنڈاپور سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک  کےمطابق "سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پہلی جے آئی ٹی قاتلوں نے خود بنائی جس کا مقصد انصاف کرنا نہیں کلین چٹیں حاصل کرنا تھا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی کی یکطرفہ رپورٹ ٹرائل کیلئے خصوصی عدالت میں بھجوائی گئی۔ ہم خصوصی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کیلئے چارہ جوئی کررہے ہیں، ہمارے پاس عدالتوں سے انصاف مانگنے کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، حصول انصاف کیلئے غیر جانبدار تفتیش پہلی سیڑھی ہے "۔

پہلی جے آئی ٹی نے موقع پر موجود زخمیوں اور دیگر گواہان کے بیانات تک قلم بند نہیں کیے تھے۔ چنانچہ شہداء ماڈل ٹاون کے لواحقین ن لیگی دور حکومت کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے کام سے مطمئن نہیں تھے ۔ چنانچہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے خود سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پی ٹی آئی دور حکومت میں ایک غیر جانبدار بنوانے میں کامیاب توگئے اور حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایک نئی اور غیرجانبدارانہ جے آئی ٹی قائم بھی کردی ۔

نئی جے آئی ٹی جب گواہان کے بیانات قلم بند کرکے اپنا کام مکمل کرچکی تو نئی جے آئی ٹی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا گیا اور یوں تاحال  معاملے کی آزادانہ تحقیقات نہ ہوسکیں ۔ خرم نوازگنڈاپور سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک کےبقول " سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ساڑھے 5سال سے ایک ہی مطالبہ، موقف اور اپیل ہے کہ اس سانحہ کی غیر جانبدار تفتیش کروائی جائے، تاحال اس مطالبے کو نہیں مانا گیا۔

غیر جانبدار تفتیش سے ہی انصاف کا عمل پٹڑی پر چڑھے گا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ غیر جانبدار تفتیش نہیں ہونے دی جارہی؟ " اب سوال  یہ  پیدا ہوتاہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ اگر پرانی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ سناتی ہے تو کیا شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین اظہارِ اطمینان کریں گے ؟؟؟ ضرورت اس امر کی تھی کہ معاملے کی آزادانہ تحقیقات کرکے پہلے شہداء کے لواحقین کو مطمئن کیا جاتا اور پھر فیصلہ سنایا جاتا۔

ہم ایک ملک میں رہتے ہیں کہ جہاں حمزہ شہباز جیسے بااثر سیاست دان کےلیے چھٹی کے دن بھی عدالت کام کرتی ہے , اور جہاں اسحٰق ڈار کے مقدمے کا فیصلہ ایک دن میں ہوجاتاہے ۔ مگر ماڈل ٹاون کیس کا فیصلہ پانچ سال میں نہیں ہوسکا۔ یہاں مظلوم بسمہ امجد سارا دن جج صاحبان کے دروازے پر انصاف مانگنے کےلیے بیٹھی رہتی ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی ۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ قومی چور احتساب احتساب کھیلتے کھیلتے ملک سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے مگر حکمران بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہ گئے۔میں شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین سے کہنا چاہتی ہوں کہ آپ یہ معاملہ اب بس اللہ کی عدالت میں لے جائیں ۔ وہیں آپ کی شنوائی ہوگی اور وہیں سے انصاف بھی ملے گی ۔ یہ دنیا آپ کو انصاف نہیں دے سکتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :