
انڈین کرونیکلز کے پیچھے کون ؟؟؟
پیر 14 دسمبر 2020

عائشہ نور
(جاری ہے)
وہ اپنے گروپ کے 1991 سے قائم اخبار نیو دہلی ٹائمز کے مدیر ہیں اور اس کے علاوہ ان کے ذاتی ای میل ایڈریس اور ان کی کمپنی کے ای میل سے چار سو سے زیادہ ویب سائٹس کے نام رجسٹر کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال جب بی بی سی نے نئی دہلی کے ایک پرتعیش علاقے میں موجود اس گروپ کے دفترسے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ اس عمارت میں کوئی دفتر نہیں ہے لیکن اس سال بی بی سی کے دوبارہ جانے پر وہاں پر موجود عملے نے داخل ہونے سے منع کیا اور نہ ہی کسی سوال کا جواب دیا۔پھر بات آتی ہے کہ سری واستوا گروپ سے منسلک ایک پر اسرار ٹیکنالوجی کمپنی 'اگلایا' کی، جس کے مالک کا نام بظاہر انکور سری واستوا ہے اور اس کمپنی کا پتہ بھی وہی ہے جو سری واستوا گروپ سے منسلک ہر ادارے کا ہے۔"اگلایا " کی ویب سائٹ اس سال فروری سے غیر فعال ہے لیکن چند برس پہلے تک یہ کمپنی دنیا بھر میں اپنی 'ہیکنگ اور جاسوسی' کرنے والے آلات اور ٹیکنالوجی اور 'انفارمیشن وار فئیر سروس' کی بھرپور تشہیر کر رہی تھی۔"اگلایا " نے اپنے اشتہار میں دعوی کیا تھا کہ ان کے پاس ملکوں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہے اور تین سال قبل امریکی جریدے فوربز کو دیے گئے انٹرویو میں انکور سری واستوا نے دعوی کیا تھا کہ وہ صرف 'انڈین خفیہ اداروں کو اپنی خدمات اور مصنوعات فراہم کرتے ہیں۔سری واستوا گروپ سے منسلک تیسرا اہم نام ڈاکٹر پرامیلا سری واستوا کا ہے جو کہ گروپ کے بانی ڈاکٹر گووند نارائن کی اہلیہ ، انکت سری واستوا کی والدہ اور گروپ کی چئیر پرسن ہیں۔ی یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ میں ان کا ذکر 2009 کے ایک واقعے کی صورت میں آتا ہے جب جنیوا میں ہونے والی ایک تقریب میں انڈین ڈاکٹر ہرشند کور نے الزام لگایا کہ انھیں وہاں پر'ڈاکٹر پی سری واستوا' نے ڈرایا اور دھمکایا اور کہا کہ وہ 'انڈین حکومت کی بہت سینئیر عہدے دار ہیں۔'ی بی سی نے جب اس بارے میں جاننے کے لیے ڈاکٹر ہرشند کور سے رابطہ کیا اور انھیں پرامیلا سری واستوا کی تصویر دکھائی تو اسے انھوں نے پہچان کر تصدیق کی کہ اسی خاتون نے ان کو دھمکیاں دی تھیں۔ڈاکٹر ہرشند کور نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ وطن واپس آ گئیں تو پہلے ان کو سرکاری نوکری سے اس الزام کے باعث سبکدوش کر دیا گیا کہ انھوں نے جنیوا میں انڈین مخالف باتیں کی ہیں اور اس کے بعد انڈین تفتیشی حکام بار بار ان کے گھر آئے، سوالات کیے اور پاکستان سے تعلقات رکھنے کے الزامات بھی لگائے۔
ڈاکٹر کور نے کہا کہ یہ معاملہ صرف اس وقت ختم ہوا جب أقوام متحدہ کی جانب سے انڈین حکومت کو ان کے حق میں خط بھیجا گیا ۔ اس تحقیق میں پتہ چلتا ہے کہ جنیوا میں سری واستوا گروپ سے منسلک اداروں کی حکمت عملی ہے کہ یو این ایچ سی آر کے دفتر کے باہر مظاہرے کریں، پریس کانفرنس کریں اور مختلف تقریبات میں شرکت کر کے اپنے بیانیے کو پیش کریں۔جبکہ برسلز میں یورپی پارلیمان میں اس گروپ سے وابستہ اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ممبر پارلیمان کی قربت حاصل کی جائے اور ان کے ذریعے پاکستان کے خلاف پارلیمان میں آوازیں بلند کی جائیں ، جعلی میڈیا اداروں میں مضامین لکھوائے جائیں اور اسی بیانیے کے فروغ کے لیے بین الاقوامی دورے کرائے جائیں۔
بعض ذرائع کے مطابق سری واستو نیٹ ورک کی پاکستان کے اندر سے معاونت بھی ہورہی ہے۔ اور یہ کام " حسین حقانی " کی سربراہی میں ہوتا ہے ۔ اس میں کئ ضمیر فروش صحافی ملوث ہیں , جوکہ پاکستانی میڈیا میں سرایت کیے ہوئے ہیں اور ان کے پاس ویری فائیڈ ٹویٹر اکاونٹس اور فیسبک پیجز بھی موجود ہیں۔ اوریہ لوگ " زرد صحافت " کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمز بھی اس پروپیگنڈا مہم میں ملوث ہیں ۔
ماخذ " بی بی سی اردو " !!!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عائشہ نور کے کالمز
-
میرا حجاب ، اللہ کی مرضی!!!
منگل 15 فروری 2022
-
غلام گردش!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
صدائے کشمیر
اتوار 23 جنوری 2022
-
میرا سرمایہ ، میری اردو!!!
بدھ 12 جنوری 2022
-
اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی
بدھ 29 دسمبر 2021
-
ثقافتی یلغار
پیر 20 دسمبر 2021
-
"سری لنکا ہم شرمندہ ہیں"
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
چالاکیاں !!!
ہفتہ 27 نومبر 2021
عائشہ نور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.