عورت کبھی حوا ، کبھی مریم ، کبھی زاہرہ !!!

منگل 9 مارچ 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

8مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس موقع پر " عورت مارچ " کے نامناسب انداز میں انعقاد اور غیراخلاقی مطالبات نے پاکستان میں عالمی یومِ خواتین کو ہی متنازعہ بنا کررکھ دیاہے۔  چنانچہ پاکستانی خواتین کی اکثریت نے" میرا جسم ، میری مرضی" کے نعرے کو یکسرمسترد کردیا۔ "عورت مارچ " کی منتظمین نے حقوق نسواں کی آڑ میں جس طرح اسلام میں عورت کے مقام اور حیثیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ، وہ قابلِ مذمت ہے۔

اگر دیکھا جائے تواسلام حقوق نسواں کا بہترین محافظ ہے ، البتہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے حقوق کی پامالی یکسرایک الگ مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ پاکستانی معاشرہ حقیقی معنوں میں ایک اسلامی معاشرہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے منفی معاشرتی رسوم ورواج ہمارے آباؤ اجداد کے مشرف بہ اسلام ہونے سےقبل رائج ہوئے تھے ، جس میں ونی ، وٹہ سٹہ ، جہیز ، وراثت سے محرومی وغیرہ ، تعلیم سے محرومی ، بیواؤں سے ناانصافی، شامل ہیں ۔

(جاری ہے)

چنانچہ "عورت مارچ" کا اقدام انتہائی ناپسندیدہ قرار پایا اور معاشرے کے ہر طبقے نے " عورت مارچ" کی مذمت کی ، نیز خواتین نے اظہار لاتعلقی بھی کیا اور اسلامی تعلیمات سے اپنے لگاؤ کا بھی برملا اظہار کیا۔ تاہم ایک چھوٹے سے لبرل طبقے کے" عورت مارچ" کے غلط مطالبات کے بھیانک نتائج جانے کتنے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو بھگتنے پڑے ۔ اس کےلیے صرف ایک مثال کافی ہےکہ جب لاہور کے نجی ہسپتال میں لڑکی کی لاش رکھ کر بھاگنے والے نوجوان  اسامہ کو پولیس نے گرفتار کر لیا جو اپنی دوست  لڑکی کی موت کا سبب بنا ،اسامہ لڑکی کو ہسپتال چھوڑ کر بھاگ گیا ، یقیناً آگر شوہر ہوتا تو ایسے منہ چھپا کر دبے پاؤں نہ بھاگتا۔

پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے ملزم کو پکڑ کر تفتیش شروع کی تو سچ سامنے آ گیا ، لڑکی گھر سے فیس کا بتا کر 125000روپے کی رقم لائی تھی۔
گزشتہ برس کی طرح اس مرتبہ بھی " عورت مارچ" کا انعقاد ہورہا ہے۔ اور رواں برس "پدر شاہی تشدد" کے خلاف احتجاج کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اگرچہ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کی اصطلاح کافی پرانی ہے مگر لفظ"پدر شاہی " بے حدپراسرار معلوم ہوتا ہے۔

گویا اس مرتبہ گھریلو تشدد کی آڑ میں خاندانی نظام ، والدین ، بھائی اور شوہر وغیرہ کے خلاف اکسانے کا نیا جواز تلاش کرلیا گیا ہے۔ گویا خواتین کو یہ باور کروایا جائے گا کہ ان کا خاندان ہی ان کی آزادی کا کھلا دشمن ہے ، لہذٰا آزادی کے حصول کےلیے بغاوت کیجئے ۔ بظاہر اس کا مقصد تشدد کے خلاف احتجاج ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو مادرپدر آزادی کی ایک نئی دعوت دینا بھی ہے۔

مقصد وہی ہے کہ چادر اور چاردیواری کا بھرم ختم کرکے مغرب کی طرز پر آزاد خیال مگر مزدور عورت تیار کی جائے۔  گھریلو تشدد کی بجائے "پدرشاہی "کی اصطلاح کا استعمال اپنی معنویت میں غیر معمولی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس مرتبہ بالی ووڈ کے نغموں کی تشہیر بھی "عورت مارچ" کے ارادوں میں شامل ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہےکہ گھریلو تشدد، اور لاپتا افراد کےلیے آواز اٹھانے سے بالی ووڈ کا کیا تعلق ہے؟ یقیناً کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد موسیقی کی آڑ میں فحاشی اورعریانی کی پشت پناہی کرنا ، اور ہندوانہ ثقافت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔

یہ مظلوموں کی آواز بننے کے کون سے طریقے ہیں ؟ کیا کوئی سمجھائے گا؟؟؟ سچ تو یہ ہے کہ عورت کے حقوق کااولین اور واحد ضامن صرف اور صرف اسلام ہے۔ پاکستانی معاشرہ جتنا اسلامی  اقدار ، تہذیب وتمدن اور ثقافت کی جس قدر زیادہ پیروی کرے گا ، زمانہ جاہلیت کے فرسودہ رسوم ورواج کے بندھن اتنے ہی ڈھیلے پڑ جائیں گے اور عورت کو وہ مقام بھی ملے گا، جس کی وہ حقدار ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :