اک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے!!!‎

بدھ 19 مئی 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

تورات کے مطابق ہیکل سلیمانی یا ہیکل اول محاصرہ یروشلم (587 قبل مسیح) کے بعد نبو کد نضر کے تباہ کرنے سے پہلے باستانی یروشلم کے بیت ہمقدش میں واقع تھا اور آگے چل کر ہیکل دوم نے چھٹی صدی قبل مسیح میں اس کی جگہ لی تھی۔
عبرانی بائبل بیان کرتا ہے کہ ہیکل متحدہ مملکت اسرائیل و یہودہ کے بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت میں تعمیر کر کے یہواہ کے لیے وقف کیاگیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ تابوت سکینہ اسی میں رکھا جاتا تھا۔

یہودی مؤرخ یوسیفس کہتا ہے کہ ”ہیکل تعمیر کرنے کے چار سو ستر سال، چھ ماہ اور دس دن بعد جلا دیا گیا تھا“۔
دراصل بات یہ ہے کہ سب سے پہلےحضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی تھی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔

(جاری ہے)

پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سليمان علیہ السلام (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔

اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی قرار دیتے ہیں۔ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586 ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔بخت نصر کے بعد 539 ق م میں شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔

یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔137 ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نےمسیحیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کر لیے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے "دیوار گریہ" کہا جاتا ہے۔

اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرناچاہتے ہیں۔ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی قرار دیتاہے۔
14 مئ 1948 کو مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے ایک ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل قائم کی گئ ، جس نے ارض فلسطین کو مسلمانوں سے چھین کر یہودی آبادی کاری کا گھناؤنا منصوبہ شروع کیا ،  1948, 1967 اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگوں میں عرب اتحادی ممالک کی شکست کے بعد اسرائیل نے ارض مقدس میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ لیے۔

اور گریٹر اسرائیل کے چارنکاتی منصوبے پر تیزی سےکام شروع کردیا۔ اس کے چار مراحل کی ترتیب میں تیسری عالمی جنگ،  مسلمانوں کے دو اہم ترین مقدس مقامات مسجد اقصیٰ​ اور قبتہ الصخرہ کا انہدام،  معبد یعنی ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور   حضرت داؤد کی تاج پوشی کے لئے استعمال ہونے والے پتھر (تخت داؤد) کو نوتعمیر شدہ معبد میں رکھا جانا ہے۔ "پروٹوکولز آف ایلڈرز آف زائیان " نامی ایک کتاب جو یہودی منصوبوں کا مجموعہ ہے جو 1897ء میں ترتیب دیئے گئے تھے ، اور اس متنازعہ ترین کتاب پر آج تک پابندی ہے ۔

اس کتاب میں گریٹر اسرائیل کا نقشہ بھی پیش کیاگیا تھا۔ اس نقشہ میں ایک سانپ ان تمام علاقوں کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔   جس کے بعد گریٹر اسرائیل کا مرحلہ آئے گا۔
جبکہ ارض مقدس  کی مسلمانوں کے نزدیک حرمت و تقدس اس وجہ سے ہےکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئےمکہ سے بیت المقدس پہنچے جہاں تمام انبیاء علیھم السلام نے آپ (ص)کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی اور پھر وہاں سے براق پر سوار ہوکر مقام معراج کےلیے سفر پر روانہ ہوئے ۔

2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ اول تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ ثانی قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔
مسجدِ اقصیٰ ایک بہت بڑے احاطے کا نام ہے، جوکہ حضرت حضرت یعقوب علیہ السلام کی تعمیر کردہ "مسجد بیت المقدس" اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب ہیکل سلیمانی کے مجموعی احاطہ پر مشتمل ہے۔

لہذٰا مسجد اقصیٰ ہی ہیکلِ سلیمانی کی موجودہ شکل ہے  ۔  مسجد اقصیٰ میں زیادہ تر حصہ باغات پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ کئی چھوٹی بڑی عمارتیں اور عبادت گاہیں ہیں۔ کئی ایکڑ پر پھیلے اس قطعہِ زمین کو حرمِ قدسی یا حرم الشریف بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں دوعمارات سب سے اہم ہیں : قبتہ الصخرہ یعنی سنہری گنبد والی عمارت اور مسجدِ قبلی یعنی سرمئی گنبد والی عمارت۔

مسجدِ قبلی کو جامع الاقصیٰ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جمعہ کے اجتماع کے لیے مسجد کا یہی منبر استعمال ہوتا ہے لیکن مسجد اس پورے قطعہِ زمین کو مانا جاتا ہے۔اس وقت اسرائیل مسجد اقصیٰ کے انہدام اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر منصوبے کو سنجیدگی سے آگے بڑھارہا ہے ، جسے عالمی طاقتوں کی بھرپور آشیرباد حاصل ہے ۔ فلسطینی عوام کی ارض مقدس سے جبراً بے دخلی بھی ایک ظلم عظیم ہے ، جس کے پس منظر میں" گریٹر اسرائیل" کے قیام کی راہ ہموار کرنا شامل ہے۔

لہذٰا امت مسلمہ سے پر زور اپیل ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائے ، اور OIC اورعرب لیگ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے مظلوم فلسطینی عوام کی مدد کےلیے عملی اقدامات کرے کیونکہ مذمت کا وقت اب گزر چکاہے ۔ اگر پاکستان میں صرف ایک مغربی ملک فرانس کے خلاف احتجاج پر یورپین پارلیمنٹ پاکستان کے خلاف سخت ترین عملی اقدامات کی تجاویز پر مشتمل قرار داد منظور کرسکتی ہے تو مسلم ممالک اسرائیل کے خلاف مشترکہ عملی اقدام کیوں نہیں اٹھاسکتے؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :