سائنس اور اسلام کا دورعروج ۔ قسط نمبر7

جمعرات 17 جون 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو شہید کو "جدید راکٹ تکنیک " کا موجد تسلیم کیاجاتاہے۔ البتہ بعض مؤرخین کے مطابق آپ کےوالد " حیدر علی " اس تکنیک کے اصل موجدتھے۔ بہرحال ریاست میسور کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف لڑی جانے والی چاروں​ جنگوں میں ٹیپو سلطان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ انگریز فوج کے خلاف "راکٹ تکنیک " کا بھرپور استعمال کیا۔

یہ " راکٹ سازی" کی ابتدائی شکل تھی ،  میسوری راکٹ کا وزن چھ سے بارہ پونڈ تک ہوتاتھا۔ ان راکٹوں کا خول لوہے کا بنا ہوتاتھا جبکہ ان کے ساتھ دس فٹ کا بانس بندھاہوتاتھا ۔ یہ راکٹ ایک سے ڈیڑھ میل دور تک داغے جاسکتے تھے۔ اگرچہ یہ مکمل طور پر درست نشانہ نہیں لگا سکتے تھے ، تاہم کثیر مقدار میں ایک ساتھ داغے جانے کے باعث دشمن کی فوج میں خوف وہراس پھیلانے کیلئے کافی تھے۔

(جاری ہے)

ٹیپو سلطان شہید کی فوج میں پانچ ہزار سپاہیوں​ پر مشتمل راکٹ بردار دستہ قائم تھا ، جس کا نام "فتح المجاہدین" رکھاگیا تھا۔ یہ راکٹ چھوٹے پہیوں والی گاڑیوں سے بھی داغے جاسکتے تھے ۔ ایک گاڑی بیک وقت پانچویں راکٹ داغ سکتی تھی۔ کرنل بیلے نامی ایک انگریز فوجی افسرکے مطابق"ان راکٹوں سے ہم اتنے تنگ آچکے تھے  کہ ہمارا محفوظ رہنا مشکل تھا،پہلے نیلی روشنی چمکتی اور پھر میسوری راکٹوں کی بارش شروع ہوجاتی ۔

بیس سے تیس فٹ بانسوں کی وجہ سے لوگ شدید زخمی اور ہلاک ہورہےتھےاور ہماری فوج کے خلاف یہ راکٹ خاصے مئوثر ثابت ہوئےتھے۔یہ تاثر دینا غلط ہوگا کہ ٹیپو سلطان کیلئے میسوری راکٹ تکنیک بالکل ناکام ثابت ہوئی ، دراصل میسور کی تین جنگوں میں اگر انگریز فوج کے قدم اکھڑے تو اس میں راکٹ تکنیک کا بہت عمل دخل تھا۔ 1780 کے معرکہ پلور میں ایک راکٹ ہی انگریزوں کی گولہ بارود سے بھری گاڑی سے جاٹکرایاتھا ، جس سے ہرطرف تباہی مچ گئی اور انگریز فوج یہ جنگ بری طرح ہار گئ ۔

انگریز دفاعی ماہر لارڈویلسلی میسوری راکٹ تکینک سے خاصا متاثر تھا۔ سرنگاپٹم کی آخری اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد برطانوی فوج کو سرنگاپٹم قلعے سےچھ سو راکٹ لانچر، سات سو قابلِ استعمال راکٹ جبکہ نو ہزار سے زائد خالی راکٹ ملے ۔ جن میں بیشتر رائل آرٹلری میوزیم لندن بھجوا دیےگئے۔ جن کی مدد سے برطانیہ نے اپنا پہلا راکٹ پروگرام 1801 میں شرع کیا۔

چنانچہ ایک انگریز کرنل سر ولیم کانگریو  نے میسوری راکٹ تکنیک سے استفادہ کرتے ہوئے پہلا برطانوی راکٹ ڈیزائن تیارکیا ، جسے کانگریو راکٹ کانام دیاگیا۔ انگریزوں نے ان راکٹوں کا استعمال نپولین کےخلاف جنگوں میں خوب کیا ۔ راکٹ تکنیک کی مدد سے ہی انگریزوں نے کوپن ہیگن سمیت کئ دوسرے شہر ہزاروں راکٹوں کی برسات کرکے تباہ کردیئے۔ انگریزوں نے میسوری راکٹ میں جدت لانے کےلیے تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا اور اسے مزید موثر بناتے رہے۔

  1930 میں گوڈارڈ نے راکٹ میں مائع ایندھن بھرنے کا طریقہ ایجاد کرکے راکٹ سازی کی تکنیک کو مزید ترقی دی ۔ لندن کے مشہور سائنس میوزیم میں میسوری راکٹ آج بھی نمائش کیلئے رکھے گئے ہیں ، جو کہ انگریزوں کی طرف سے ٹیپو سلطان کی تکنیک کا احترام قرار دیا جاسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میسوری راکٹ ابتدائی نوعیت کا راکٹ تھا ، جسے بعد میں انگریزوں نے بہتر سے بہترین بنانے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

سابق بھارتی صدر اور جوہری سائنسدان اے پی جے عبدالکلام اپنی کتاب ونگ آف فائر" میں رقم طراز ہیں کہ "انہوں نے "ناسا" کے ایک سینٹر میں میسوری راکٹ والی ایک پینٹنگ دیکھی ہے " عبدالکلام مزید لکھتے ہیں کہ " زمین کے دوسرے سرےپرجنگ میں سب سے پہلے استعمال ہونے والے راکٹ اور انہیں استعمال کرنے والے ٹیپو سلطان کی بصیرت کا جشن منایا جارہاتھا، وہیں ہندوستان میں لوگ اسے جانتے ہی نہیں یا پھر توجہ نہیں دیتے ہیں "۔


چنانچہ اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ٹیپوسلطان سائنسی علوم کی اہمیت اور اسلحہ سازی میں جدت لانے کےلیے مہارتوں کے حصول میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ اہل مغرب نے اڑنے والے آتشیں اسلحے کی ابتدائی تکنیک متحدہ ہندوستان کی ریاست میسور سے سیکھی تھی۔مسلمانوں نے اپنے عروج سے زوال کی جانب سفر کے دوران بھی دنیا کو بہت کچھ سکھایا، اور اہل مغرب نے یہ ہم سےہی سیکھا اور اسے مزید ترقی دی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :