اُلوؤں کی بستی

اتوار 27 اکتوبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

یہ ایک روایت ہے۔کہتے ہیں کہ ایک طوطا اور مینا کا گزر ایک ویرانے سے ہوا،وہ دم لینے کے لیے ایک ٹنڈ منڈ درخت پر بیٹھ گئے۔یہ ایک اجاڑ بستی تھی۔طوطے نے مینا سے کہا ’ اس علاقے کی ویرانی دیکھ کر لگتا ہے ، یہاں الوؤں نے بسیرا کیا ہوگا‘۔ساتھ والی شاخ پر ایک الو بیٹھا یہ سب سن رہا تھا۔یہ سب سن کر اس نے اڑان بھری اور ان کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔

علیک سلیک کے بعد اس نے طوطا مینا کو مخاطب کر کے کہا ، آپ میرے علاقے میں آئے ہیں،میں آپ کا بہت ممنون ہوں گا،اگر آپ رات کا کھانا ،میرے غریب خانے پر تناول فرمائیں۔جوڑے نے دعوت قبول کرلی،رات کا کھانا کھانے کے بعد،صبح تک وہیں قیام کیا گیا،اور بھر صبح وہ جوڑا وہاں سے رخصت ہونے لگا۔جب وہ نکلنے لگے تو الو نے مینا کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا’ اسے کہاں لے جارہے ہو، یہ میری بیوی ہے‘۔

(جاری ہے)

یہ سن کر طوطے کی جان نکل گئی۔وہ کہنے لگا’ یہ کیسے ممکن ہے،یہ تمہاری بیوی کیسے ہوسکتی ہے،یہ میرے ساتھ آئی ہے،تم الو ہو یہ مینا ہے،تم زیادتی کررہے ہو یہ تمہاری بیوی نہیں ہے ‘۔اس پر الو نے پرسکون آہ بھری اور کہا’ ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں ہے،صبح ہو گئی ہے،عدالتیں کھل گئیں ہوں گی،ہم وہاں چلتے ہیں،جو فیصلہ وہ کریں گی،ہمیں قبول کرنا ہوگا‘۔

مرتا کیا نہ کرتا طوطا مان گیا۔ الوؤں کے اس علاقے کے جج صاحب نے دونوں کے دلائل بہت تفصیل سے سنے،کافی دیر مقدمہ چلتا رہا۔آخر میں جج نے فیصلہ سنا دیا کہ مینا طوطے کی نہیں الو کی بیوی ہے ،اور اسے الو کے ساتھ رہنا ہوگا۔یہ سن کر طوطا روتے ہوئے،اکیلا ایک جانب چل دیا۔ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا،کہ الو نے اسے آواز دی۔’ تنہا کہاں جارہے ہو،اپنی بیوی تو لیتے جاؤ‘۔

طوطے نے روتے ہوئے جواب دیا’ یہ میری بیوی کہاں ہے،عدالت کے فیصلے کے مطابق اب یہ تمہاری بیوی ہے‘۔اس پر الو ہنسنے لگا۔پھر وہ بولا’ یہ میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے،مجھے تو بس تمہیں یہ بتانا تھا کہ جنگل،بستیاں،شہر الوؤں کی وجہ سے ویران نہیں ہوا کرتیں، بلکہ اس وقت ویران ہوتی ہیں،جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے، ہماری بستی کی ویرانی ہم سے نہیں ہے‘۔


میں اکثر راتوں کو چاند کو تکنے لگتا ہوں تو مجھے سفید کوٹ والے سڑکوں پر لہولہان نظر آتے ہیں،وہ جنہوں نے اس مقدس پیشے کے لیے کئی راتیں جاگ جاگ کر کاٹیں اور آج بے انصاف نظام ان کو پکوڑے بیچنے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ میں اکثر ان راتوں کو یاد کرتا ہوں جب تہجد کے وقت ہمارا پورا ڈاکٹر ہاسٹل مسجد میں ہوتا تھا کہ ایک چھوٹا سا امتحان پاس ہوجائے کہ مستقبل اچھا بن سکے۔

آج یہ سب کیسے بے انصاف نظام کی طرف دھکیل دیے گئے؟ سب ہی سڑکوں پر ہیں،سب دھکے کھا رہے ہیں۔ مجھے راتوں میں جیل کی کال کوٹھری سے صلاح الدین کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ جس کے جسم پر استریاں لگائی گئیں،جس کی کھال ادھیڑی گئی،جس کی ہڈیاں توڑی گئیں اور اس کی لاش کا ایک ایک حصہ سوشل میڈیا کی زینت بنا،صلاح الدین کی ہر چیخ معاشرے کی نا انصافیاں میں ہوا ہوگئی، ورثاء نے معاف کردیا اور ظالم آزاد ہوگئے۔

مجھے راتوں میں قندیل بلوچ کی وہ سیلفی یاد آتی ہے،جو بنائی تو اس نے بالی وڈ میں جانے کے لیے تھی،مگر وہ اسے ڈی جی خان کے ایک تاریک قبرستان میں کئی من مٹی تلے لے گئی۔قندیل کے بھائی نے سرِ عام غیرت کے نام پر قتل کا اعتراف کیا،اور یہ قتل کیوں کہ حالتِ طیش میں نہیں تھا،اس پر پوری سزا کا اطلاق ہونا تھا،اس مقدمے کے تمام ملزمان نہ صرف چھوڑ دیے گئے،بلکہ وہ قاتل جس نے قتل کا اعتراف کیا تھا ،اس کو بھی ورثہ نے معاف کردیا،بعد میں عوامی دباؤ پر اس کو معمولی سی سزا ہوئی۔

انہی راتوں میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وہ مائیں بھی یاد آتی ہیں،جن کے چہروں پر قریب سے گولیاں ماری گئیں، جن کے لیے پوری ریاستی مشینری حرکت میں آئی مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ آج میرے سامنے ساہیوال کے ایک پیٹرول پمپ پر بیٹھے خون آلود کپڑے پہنے تین بچوں کی تصویر ہے۔ یہ وہ بچے تھے کہ جن کے ماں باپ اور بڑی بہن کو ان کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا۔

ان کے چچا نے شور مچایا ،پوری ریاست کا میڈیا خاص کر سوشل میڈیا حرکت میں آیا ،تو یہ وزیر اعظم ہاؤس تک جاپہنچے ، ٹویٹر پر سخت ترین کاروائی کا وعدہ کیا گیا، مگر پھر یہ ملزمان بھی چھوٹ گئے،وہی بھائی جو چیخ رہا تھا،اس نے انصاف پر مکمل اعتماد کا اعلان کیا اور یوں الوؤں کی اجاڑ بستی میں ایک بار پھر انصاف کا بول بالا ہوگیا۔ آپ سب کو شاہ رخ جتوئی کی اسی انصاف کو منہ چڑھاتی وکٹری کی انگلیاں بھی یاد ہوں گی اور کئی ایسے گمنام چہرے بھی جو کچہریوں میں گولیاں چلا کر نکل گئے، لاشیں عدالتوں میں تڑپتی رہیں اور انصاف دینے والا کوئی نہیں تھا۔

آج ملک میں ہر طرف مایوسی ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے اور کوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے او ر شاید ہی کچھ ایسا غلط نہ ہو جو ریاستِ مدینہ کا خاصہ نہ ہو۔ ہم سب شدید مایوسی کا شکار ہیں، یہاں اگر کسی کا سڑک پر سے کوئی فون چھین کر لے جائے یا اس کو گولی ہی مار جائے تو سب کو قانون اور انصاف کی اصل حقیقت پتہ ہے۔

یہ ایک اجاڑ الوؤں کی بستی ہے کہ جہاں کا قانون طاقتور کے لیے ہر طرح کی لچک رکھتا ہے، کہیں خون بہا کا راستہ اختیار کرتا ہے اور کہیں طاقت،دھونس اور زبردستی کا اور دوسری طرف غریب اور بے بس کے لیے سانس کی بھی گنجائش نہیں رکھی جاتی۔ جہاں معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کو دبایا جاتا ہے،جہاں کے غریب کو ایوانوں تک رسائی نہیں ملتی ، جہاں مظلوم کی کوئی بات نہیں سنی جاتی ،مگر ٹک ٹاک پر وڈیوز بنانے والی خواتین کو دوستی کی بنیاد پر اہم ترین دفاتر میں اہم ترین کرسیوں تک رسائی دے دی جاتی ہے۔

میں آج بھی راتوں میں چاند کو تکتا ہوں، تو خود کو ایک ایسی اجاڑ بستی میں پاتا ہوں،جہاں تا ریکی نسلوں کا مقدر نظر آتی ہے۔ جہاں ایک کالی رات طویل ہوتی دکھائی دیتی ہے اور جہاں مجھے ہر طرف ظلم ہی ظلم دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،آپ جس معاشرے کی تباہی کی داستان پڑھیں گے ،آپ کو اس کی بنیاد ہی نا انصافی سے نظر آئے گی،اس دنیا کا وجود جنت اور دوزخ ہے،یعنی سزا اور جزا ۔

جب میرے رب نے دنیا کے نظام کے لیے روزِ محشر رکھا ہے،جنت رکھی ہے،دوزخ رکھی ہے،تو انسانی معاشرے سزا اور جزا کے وجود کو ختم کرکے کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا اور انسانی طاقت انقلاب لاسکتی ہے، کم از کم سانحہ ساہیوال اور صلاح الدین جیسے کیس تاریکی کا شکار نہیں ہوسکتے۔ ان پر انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے، مگر افسوس کے ساتھ جب برتنوں میں چھید ہو،تو آپ کو ان میں بارش کا پانی جمع کرنے کی سعی ہی نہیں کرنی چاہیے۔

افلاطون کہا کرتا تھا گمراہ معاشروں میں قانون مکڑی کا جالا ہوتا ہے کہ جہاں صرف کیڑے مکوڑے پھنسا کرتے ہیں،جبکہ بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ یہاں چار سو مکڑی کے جالے ہیں،اور تاریکی ہمارا مقدر ہے۔ہمارے قانون و عدل کے نظام کو ہنگامی بنیادی پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں بوسیدہ پولیس کچہری کلچر کو بھی بدلنا ہوگا اور عدلیہ کے نظام میں بھی اصلاحات لانا ہوں گے۔

ریاست کو ایسے ہر مقدمے میں مدعی بننے کا قانون لانا ہوگا ،جہاں یہ خوف موجود ہو کہ اس میں اصل مدعی یا تو پیسے لے کر چپ کرگیا یاں پھر کسی دباؤ میں آگیا۔ اگر صرف چند سالوں میں ایسا نہ ہوا،تو پھر آنے والا وقت ایک ایسی نسل ضرور دیکھے گا،جن کی نگاہیں تو چاند پر ہوں،مگر ان کا بسیرا ایک اجاڑ ،ویران بستی میں ہوگا،الوؤں کی بستی میں ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :