
اُلوؤں کی بستی
اتوار 27 اکتوبر 2019

ڈاکٹر عفان قیصر
(جاری ہے)
میں اکثر راتوں کو چاند کو تکنے لگتا ہوں تو مجھے سفید کوٹ والے سڑکوں پر لہولہان نظر آتے ہیں،وہ جنہوں نے اس مقدس پیشے کے لیے کئی راتیں جاگ جاگ کر کاٹیں اور آج بے انصاف نظام ان کو پکوڑے بیچنے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ میں اکثر ان راتوں کو یاد کرتا ہوں جب تہجد کے وقت ہمارا پورا ڈاکٹر ہاسٹل مسجد میں ہوتا تھا کہ ایک چھوٹا سا امتحان پاس ہوجائے کہ مستقبل اچھا بن سکے۔آج یہ سب کیسے بے انصاف نظام کی طرف دھکیل دیے گئے؟ سب ہی سڑکوں پر ہیں،سب دھکے کھا رہے ہیں۔ مجھے راتوں میں جیل کی کال کوٹھری سے صلاح الدین کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ جس کے جسم پر استریاں لگائی گئیں،جس کی کھال ادھیڑی گئی،جس کی ہڈیاں توڑی گئیں اور اس کی لاش کا ایک ایک حصہ سوشل میڈیا کی زینت بنا،صلاح الدین کی ہر چیخ معاشرے کی نا انصافیاں میں ہوا ہوگئی، ورثاء نے معاف کردیا اور ظالم آزاد ہوگئے۔ مجھے راتوں میں قندیل بلوچ کی وہ سیلفی یاد آتی ہے،جو بنائی تو اس نے بالی وڈ میں جانے کے لیے تھی،مگر وہ اسے ڈی جی خان کے ایک تاریک قبرستان میں کئی من مٹی تلے لے گئی۔قندیل کے بھائی نے سرِ عام غیرت کے نام پر قتل کا اعتراف کیا،اور یہ قتل کیوں کہ حالتِ طیش میں نہیں تھا،اس پر پوری سزا کا اطلاق ہونا تھا،اس مقدمے کے تمام ملزمان نہ صرف چھوڑ دیے گئے،بلکہ وہ قاتل جس نے قتل کا اعتراف کیا تھا ،اس کو بھی ورثہ نے معاف کردیا،بعد میں عوامی دباؤ پر اس کو معمولی سی سزا ہوئی۔ انہی راتوں میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وہ مائیں بھی یاد آتی ہیں،جن کے چہروں پر قریب سے گولیاں ماری گئیں، جن کے لیے پوری ریاستی مشینری حرکت میں آئی مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ آج میرے سامنے ساہیوال کے ایک پیٹرول پمپ پر بیٹھے خون آلود کپڑے پہنے تین بچوں کی تصویر ہے۔ یہ وہ بچے تھے کہ جن کے ماں باپ اور بڑی بہن کو ان کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ان کے چچا نے شور مچایا ،پوری ریاست کا میڈیا خاص کر سوشل میڈیا حرکت میں آیا ،تو یہ وزیر اعظم ہاؤس تک جاپہنچے ، ٹویٹر پر سخت ترین کاروائی کا وعدہ کیا گیا، مگر پھر یہ ملزمان بھی چھوٹ گئے،وہی بھائی جو چیخ رہا تھا،اس نے انصاف پر مکمل اعتماد کا اعلان کیا اور یوں الوؤں کی اجاڑ بستی میں ایک بار پھر انصاف کا بول بالا ہوگیا۔ آپ سب کو شاہ رخ جتوئی کی اسی انصاف کو منہ چڑھاتی وکٹری کی انگلیاں بھی یاد ہوں گی اور کئی ایسے گمنام چہرے بھی جو کچہریوں میں گولیاں چلا کر نکل گئے، لاشیں عدالتوں میں تڑپتی رہیں اور انصاف دینے والا کوئی نہیں تھا۔ آج ملک میں ہر طرف مایوسی ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے اور کوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے او ر شاید ہی کچھ ایسا غلط نہ ہو جو ریاستِ مدینہ کا خاصہ نہ ہو۔ ہم سب شدید مایوسی کا شکار ہیں، یہاں اگر کسی کا سڑک پر سے کوئی فون چھین کر لے جائے یا اس کو گولی ہی مار جائے تو سب کو قانون اور انصاف کی اصل حقیقت پتہ ہے۔ یہ ایک اجاڑ الوؤں کی بستی ہے کہ جہاں کا قانون طاقتور کے لیے ہر طرح کی لچک رکھتا ہے، کہیں خون بہا کا راستہ اختیار کرتا ہے اور کہیں طاقت،دھونس اور زبردستی کا اور دوسری طرف غریب اور بے بس کے لیے سانس کی بھی گنجائش نہیں رکھی جاتی۔ جہاں معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کو دبایا جاتا ہے،جہاں کے غریب کو ایوانوں تک رسائی نہیں ملتی ، جہاں مظلوم کی کوئی بات نہیں سنی جاتی ،مگر ٹک ٹاک پر وڈیوز بنانے والی خواتین کو دوستی کی بنیاد پر اہم ترین دفاتر میں اہم ترین کرسیوں تک رسائی دے دی جاتی ہے۔ میں آج بھی راتوں میں چاند کو تکتا ہوں، تو خود کو ایک ایسی اجاڑ بستی میں پاتا ہوں،جہاں تا ریکی نسلوں کا مقدر نظر آتی ہے۔ جہاں ایک کالی رات طویل ہوتی دکھائی دیتی ہے اور جہاں مجھے ہر طرف ظلم ہی ظلم دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،آپ جس معاشرے کی تباہی کی داستان پڑھیں گے ،آپ کو اس کی بنیاد ہی نا انصافی سے نظر آئے گی،اس دنیا کا وجود جنت اور دوزخ ہے،یعنی سزا اور جزا ۔ جب میرے رب نے دنیا کے نظام کے لیے روزِ محشر رکھا ہے،جنت رکھی ہے،دوزخ رکھی ہے،تو انسانی معاشرے سزا اور جزا کے وجود کو ختم کرکے کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا اور انسانی طاقت انقلاب لاسکتی ہے، کم از کم سانحہ ساہیوال اور صلاح الدین جیسے کیس تاریکی کا شکار نہیں ہوسکتے۔ ان پر انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے، مگر افسوس کے ساتھ جب برتنوں میں چھید ہو،تو آپ کو ان میں بارش کا پانی جمع کرنے کی سعی ہی نہیں کرنی چاہیے۔افلاطون کہا کرتا تھا گمراہ معاشروں میں قانون مکڑی کا جالا ہوتا ہے کہ جہاں صرف کیڑے مکوڑے پھنسا کرتے ہیں،جبکہ بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ یہاں چار سو مکڑی کے جالے ہیں،اور تاریکی ہمارا مقدر ہے۔ہمارے قانون و عدل کے نظام کو ہنگامی بنیادی پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں بوسیدہ پولیس کچہری کلچر کو بھی بدلنا ہوگا اور عدلیہ کے نظام میں بھی اصلاحات لانا ہوں گے۔ریاست کو ایسے ہر مقدمے میں مدعی بننے کا قانون لانا ہوگا ،جہاں یہ خوف موجود ہو کہ اس میں اصل مدعی یا تو پیسے لے کر چپ کرگیا یاں پھر کسی دباؤ میں آگیا۔ اگر صرف چند سالوں میں ایسا نہ ہوا،تو پھر آنے والا وقت ایک ایسی نسل ضرور دیکھے گا،جن کی نگاہیں تو چاند پر ہوں،مگر ان کا بسیرا ایک اجاڑ ،ویران بستی میں ہوگا،الوؤں کی بستی میں ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر عفان قیصر کے کالمز
-
اس ملک کا ینگ ڈاکٹر
جمعرات 26 اگست 2021
-
خواجہ سراء کی سوچ، ایڈز اور ہم
پیر 16 اگست 2021
-
انٹرنیشنل میڈیا اور دنیا
جمعرات 29 جولائی 2021
-
شکریہ جناب گورنر پنجاب
پیر 8 فروری 2021
-
کورونا اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ٹیلی سروسز
اتوار 6 دسمبر 2020
-
خدائی سلسلے
اتوار 1 نومبر 2020
-
بیٹی
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
کویڈ 19 اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی مثالی خدمات
جمعہ 18 ستمبر 2020
ڈاکٹر عفان قیصر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.