پاکستان کا فخر،گمبٹ۔۔

جمعہ 28 فروری 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

پاکستان میں جگر کے مریضوں کی تعدادبے انتہا زیادہ ہے اور یہ سب جب اپنی آخری سطح پر پہنچتے ہیں تو ایک ایسی موت ان کو آگھیرتی ہے جس پر شاید خود موت کو بھی رحم آتا ہوگا۔ گردوں کے بعد جگر وہ واحد انسانی عضو ہے جس کی پیوندکاری پر دنیا میں سب سے زیادہ کام کیا گیا ہے اور یہ تمام کام یورپ اور امریکہ جیسے ملکوں میں ہوا ہے۔ جگر کی پیوندکاری میں ایشیاء میں اس کام کا آغاز چین اور تائیوان میں ہوا اور پھر یہ سلسلہ پھیلتا گیا۔

اس میں بھارت نے سب زیادہ مہارت حاصل کی اور یوں بھارت جگر کی پیوندکاری کی عالمی منڈی کا سب سے بڑا مرکز بن گیا، بھارت نے ڈاکٹر سبھاش گپتا جیسے بڑے نام پیدا کیے اور یہ نام چھاتے چلے گئے۔ ایشیاء میں جگر کی پیوندکاری کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ یورپ امریکہ سے بالکل مختلف تھا۔

(جاری ہے)

یہاں لیونگ ڈونر یعنی کسی زندہ انسان کے جگر کا ٹکڑا استعمال کیا گیا ،جو کہ یورپ امریکہ کے کیڈاویرک جگر ٹرانسپلانٹ سے فرق تھا،جو کسی مرتے ہوئے انسان کا پورا جگر بطور عطیہ استعمال کرتے ہیں۔

وہاں لوگوں میں اعضاء عطیہ کرنے کا رواج بھی عام ہے جبکہ بھارت ،پاکستان میں جہاں لوگ خون کے عطیہ دینے پر راضی نہیں ہوتے،وہاں کیڈورک جگر ٹرانسپلانٹ کا ہونا مشکل تھا، پھر بہت سے سماجی،مذہبی اور دیگر مسائل بھی تھے،جن کی وجہ سے لیونگ ڈونر ٹرانسپلانٹ ہی ایشیاء میں فروغ پاسکتا تھا۔ ان میں انسانی جزبات کا جڑے ہونا، لوگوں میں عطیہ دینے کے رجھان کے فروغ کا نہ ہونا اور اس کی کسی سطح پر آگاہی نہ ہونا بھی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔

پاکستان میں جگر کی پیوندکاری اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں کامیابی سے شروع ہوئی۔ سرکاری سطح پر پنجاب میں کوششیں کی گئیں ،جو بہت اچھی کاوش ہے اور ابھی بھی جاری ہے ۔مگر پھر بھی یہاں جگر کی پیوندکاری بھارت کے مقابلے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی۔راقم القلم آج اس وقت سکھر سے ستر کلومیٹر دور گمبٹ میں موجود ہے، اور یہاں جگر کی پیوندکاری کی پہلی انٹرنیشنل کانفرنس ہونے جارہی ہے۔

جس وقت میں یہ سطور تحریر کررہا ہوں،اسی وقت یہاں بھارت کا سب سے بڑا جگر کی پیوندکاری کا سرجن ڈاکٹر سبھاش گپتا ،گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں اس کانفرنس میں شرکت کے لیے آرہا ہے اور یہ سب سندھ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ گمبٹ میں ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کی کوشش سے ڈیڑھ سو کامیاب جگر کی پیوندکاریاں کی جاچکی ہیں اور یہ کسی اور نے نہیں پاکستان ایک نوجوان لیور ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر اور ان کی بنائی ٹیم نے کی ہیں۔

یہ سب لیونگ ڈونر لیور ٹرانسپلانٹ ہیں اور یہ سب سندھ حکومت کی جانب سے مفت کیے گئے ہیں اور ان کے مفت سے زیادہ ،اس کامیابی کے ساتھ ہوجانا اور یوں بھارت سے ڈاکٹر سبھاش گپتا جیسے ناموں کا یہاں کھینچا چلے آنا بہت بڑی کامیابی ہے۔یہ سب پاکستان کے لیے فخر ہے اور یقینا اس پر سندھ حکومت بہت بڑی مبارک باد کی حق دار ہے۔آپ ستر اسی لاکھ روپے کی پیوندکاری ایک ایسے علاقے میں مفت کررہے ہیں جہاں پانی ڈھونڈنا بھی مشکل ہوجاتا ہے،آ پ نے ایک ایسے سنٹر کو کامیاب بنایا ہے کہ جہاں جرمنی کے بہترین ڈاکٹروں کی ٹیم ناکام ہوگئی تھی،تو اس پر شاباش تو بنتی ہے اور یہ شاباش یقینا اس سرجن ٹیم کی بھی ہے ،جنہوں نے یہ سب کرکے دکھایا۔

یہ بہت کامیاب مستقبل کی شروعات ہے کیونکہ پاکستان کے کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کی جانب سے پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل صاحب بھی اس کامیابی پر اور اس کانفرنس کے انعقاد پر ڈاکٹر عبد الوہاب ڈوگر اور ٹیم کو مبارک باد دینے کے ساتھ اس شعبے میں جلد فیلوشپ کے آغاز کا بھی عندیہ دے چکے ہیں۔یہ پاکستان کے لیے بہت خوشی کی بات ہے ۔اگر پاکستان میں یہ فیلو شپ شروع کردی گئی اور پاکستان میں ایسے سرجن پیدا ہونے لگ گئے تو یقینا یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا۔

پاکستان اس معاملے میں خود کفیل ہوگیا تو پاکستان میں سرکاری کے ساتھ پرائیوٹ سیکٹر بھی پھلے پھولے گا اور یوں پاکستان بھارت کے پرائیوٹ سیکٹر کی طرح ایشیاء سمیت پوری دنیا خاص کر مشرقی وسطی کے مریضوں کے لیے جگر کی پیوندکاری کا سب سے بڑا مرکز بن جائے گا۔وہ مرکز جہاں لیونگ ڈونر ٹرانسپلاٹ اپنے عروج پر ہوگا،کسی کو جگر کا عطیہ حاصل کرنے کے لیے لمبی ویٹنگ لسٹوں کی خواری نہیں کاٹناپڑے گی اور اس سے پاکستان میں اربوں ڈالر کی میڈیکل انڈسٹری کو فروغ حاصل ہوگا اور اس کا سارا فائدہ پاکستان کے ہیلتھ سیکٹر کے ساتھ پاکستانی معیشیت کو بھی ہوگا۔

ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر بھی اپنے اس پروگرام کو ایسی ہی شکل دے کر پورے ایشیاء خاص کر نیپال ،بنگلہ دیش ،سری لنکا،بھوتان،یہاں تک کے بھارت تک کی میڈیکل مارکیٹ کو پاکستان میں لانا چاہتے ہیں۔وہ گمبٹ انسٹی ٹیوٹ کو خود کفیل کرنے کے لیے یہاں ایشیاء کا عالمی سطح پر سستا ترین جگر ٹرانسپلانٹ متعارف کرانا چاہتے ہیں۔اس سے پاکستان میں نہ صرف معاشی خوشحالی آئے گی، بلکہ یہی رقم پاکستان میں موجود غریب مریضوں پر خرچ کی جاسکے گی۔

جگر کی پیوندکاری پاکستان کا مستقبل ہے اور 150 مفت جگر کے کامیاب ٹرانسپلانٹ کرنے والے اس یونٹ کو رول ماڈل کا درجہ دیتے ہوئے،پنجاب ،خیبر پختونخواہ،بلوچستان حکومتوں کو بھی ایسے ہی یونٹس کے قیام کی جلد کوشش کرنی چاہیے اور اس ضمن میں سندھ حکومت سے جو بھی تعاون درکار ہو وہ حاصل کیا جائے۔گمبٹ انسٹی ٹیوٹ صرف انسانی ہنر اور سرکاری پیسے کا صحیح وقت پر صحیح استعمال کا نام ہے اور یہی آج یہاں ڈاکٹر سبھاش گپتا جیسے نام کو بھارت سے یہاں لے آیا ہے۔

ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی نے جرمن ٹیم کی ناکامی کے باوجود ہار نہیں مانی،وہ پاکستان کے ماہر سرجن ڈاکٹر عبد الوہاب ڈوگر کو گمبٹ لے آئے،ان کو پورے اعتماد کے ساتھ فری ہینڈ سے کام کرنے دیا گیا اور اس کے لیے سندھ حکومت نے ہر طرح کے ذرائع فراہم کردیے۔یہ صرف ایک کامیاب پر خلوص انتظامی کامیابی کا ڈھانچہ ہے اور نتیجہ صحرا میں زندگی ہے،وہ زندگی جو کبھی سسکیاں لے کر مرتی تھی اور ایسی موت جس میں کسی کو پانی بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔

کانفرنس کی تفصیل پھر کسی گونج کا حصہ ہوگی،ابھی راقم القلم کے لیے یہی خوشی بہت ہے کہ جلد میں بھی اس ٹیم کا حصہ بننے جارہا ہوں،وہ جو صحت کے شعبے میں حقیقی تبدیلی لا چکی ہے اور میرے سامنے روشنیوں سے سجا پنڈال ہے، مریضوں کے روشن چہرے ہیں اور ایشیاء کے بڑے جگر کی پیوندکاری کے ڈاکٹروں کا اس پنڈال میں موجود ہونا ہے۔ یہ سب پاکستان کا فخر ہے،یہ گمبٹ کا فخر ہے۔ رات گئے مجھے ڈاکٹر سبھاش گپتا کا دوسرا انٹرویو کرنا نصیب ہوا، وہ سندھ آکر بہت خوش تھے،انہوں نے یہاں مفت کی جگر پیوندکاریوں کو پاکستان کا بھارت سے بڑا کارنامہ قرار دیا اور یہ یقینا پاکستان کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :