زندگی نے بالآخر تھم جانا ہوتا ہے۔آپ شاہِ وقت ہوں یا پھر گدا،ایک دن آپ کو یہاں سے جانا ہوگا۔ یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ کورونا وائرس کے دنوں میں جہاں دہشت اور اموات بڑھ گئیں،وہیں حیران کن طور پر پاکستان کے بیشتر قبرستانوں کے ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی کہ یہاں دفنانے کے لیے لائی گئی میتوں کی تعداد عام حالات سے پچاس فیصد کم ہیں۔
یعنی انسانی نقل و حرکت سے وفات کا تناسب زیادہ تھا،جن کی وجوہات سٹریس، ایکسیڈنٹ و دیگر ہیں۔ کورونا وائرس نے پاکستان میں وہ تباہی نہیں مچائی جو اس نے اٹلی اور امریکہ میں مچائی ،مگر پھر بھی اس نے کچھ ایسی داستانیں ضرور چھوڑی ہیں،جو ہمارے لیے بڑا سبق ہیں۔ راقم القلم نے قائد ِ اعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے ایم بی بی ایس کیا،کورونا وائرس سے پاکستان میں جس ڈاکٹر اسامہ کی پہلی شہادت کی خبر سنی،وہ میرا جونئیر تھا۔
(جاری ہے)
زندگی کے کئی خواب لیے یہ پھول، تاریک راہوں میں سانسوں کے کھیل میں ہی اپنی سانس دے بیٹھا۔یہ باہر سے آنے والے افراد کی سکریننگ پر تعینات تھا،وہیں اس کو یہ موضی مرض لاحق ہوا اور بیچارہ جان سے چلا گیا۔یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں،اور پوری دنیا کی طرح یہاں بھی بہت سے ڈاکٹر،نرسز،پیرامیڈکس کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور اپنی جان سے بھی گئے۔
ایسا ہی ایک چہرہ ڈاکٹر رابعہ طیب کا بھی تھا۔ ڈاکٹر رابعہ نے ابھی قائد اعظم میڈیکل کالج سے ڈاکٹر ی کی تعلیم مکمل کی تھی۔ بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں ہاؤس جاب جوائن کرنے والی تھیں۔ کورونا کے مریض راولپنڈی میں دیکھنے کے دوران، کہیں کورونا وائرس لگ گیا۔ میرے سامنے ڈاکٹر البر کھوکھر کا وہ تحریری نوٹ تھا،جو انہوں نے ڈاکٹر رابعہ کے لیے تحریر کیا، یہ وہ آخری شخص تھاجس کو اس معصوم نے دیکھا تھا۔
28 اپریل کی شام، ڈاکٹر البر کو ایک لڑکی کو مصنوعی سانس کی مشین پر ڈالنے کے لیے بلایا گیا۔نرس نے ڈاکٹر البر کو ایک بستر کی طرف اشارہ کرتے بتایا کہ یہ بیچاری ڈاکٹر ہے۔ڈاکٹر البر نے ڈاکٹر رابعہ سے باتیں شروع کیں،اس کا سانس اکھڑ رہا تھا۔نرس نے ڈاکٹر رابعہ کو پیا ر کیا اور کہا ہم تمہارا بہت خیال رکھیں گے،تمہیں کچھ بھی نہیں ہوگا۔اس کے بعد اڈاکٹر البر نے ڈاکٹر رابعہ کو مصنوعی سانس کی نالی ڈالی اور پھر ڈاکٹر رابعہ کو بے ہوش کردیا گیا۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب صرف رابعہ نہیں،اس کے خواب ،اس کی کئی سالوں کی دن رات کی محنت اور ایک اچھا مستقبل بھی مصنوعی سانس کی مشین پر چلا گیا اور پھر رابعہ کورونا وائرس سے لڑتی اس دن سے چلی گئی۔ پاکستان میں پہلے شہید ڈاکٹر،ڈاکٹر اسامہ بھی قائد اعظم میڈیکل کالج کے گریجویٹ تھے تو یوں ایک ہی میڈیکل کالج کے دو جوان چہرے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
یہ کتنی بڑی قربانی ہے اس کا احساس صرف ان بچوں کے والدین کرسکتے ہیں۔ میں کھجوروں کے درختوں کے جھرمٹ میں،ایک راستے پر چل کر رہا تھا۔ میں کافی دنوں سے ایک مریض کو دیکھ رہا تھا۔ اس پر ایک پروسیجر بھی کرچکا تھا۔ مجھے شام نرس کا فون آیا تھا کہ اس مریض کا کورونا کا ٹیسٹ پازیٹیو آگیا ہے۔ یہ ٹیسٹ پازیٹیو آنا ،کسی بھی ایسے ڈاکٹر کے لیے قیامت کے معنی رکھتا ہے کہ جس کا ایسے کسی مریض کے ساتھ واسطہ رہا ہو۔
میں یقینا گھبرا گیا۔ اس راستے پر مجھے اپنے گھر والے ،خاص کر اپنی والدہ اور بیٹی یاد آنے لگی ۔ میں اس راستے پر چند منٹ چلتا رہا اور یہ چند منٹ، مجھے تھم کر بہت کچھ سمجھنے پر مجبور کرگئے۔مجھے احساس ہوا کہ زندگی کی ناؤ بس دریا کے ایک تھپیڑے کی مار ہے، یہ دنیا ایک سمندر ہے اور آپ اس میں تیرتی چھوٹی سی ایک مچھلی،وہ جو کسی بھی وقت سمندر سے اچھال کر باہر پھینک دی جائے گی۔
آپ کی اصل حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی ہفتے وفات پائے،مجھے بالی وڈ کے وہ دو اداکار یاد آنے لگے،جن کی زندگی سوائے کامیابی اور اونچائی کے کچھ نہیں تھی۔ رشی کپور اور عرفان خان۔ رشی کپور بہت بڑے خاندان کے کامیاب ترین اداکار،65 سال کی عمر میں بلڈ کا کینسر ،لیوکیمیا ہوا اور دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں علاج کرانے کے باوجود 67 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
یہ سب کورونا کے دنوں میں ہوا اور آخری وقت میں بالی وڈ انڈسٹری کے بڑے نام پاس نہیں تھا، بیٹا رنبیر تھا اور اہلیہ،اور چند قریبی رشتہ دار۔ اسی طرح بالی وڈ کے کامیاب ترین اداکار عرفان خان بہت ہی کم عمری میں ایک انتہائی نایاب بیماری نیورواینڈوکرائن کینسر کا شکار ہوئے اور پھر اس دنیا سے چلے گئے۔ ان دونوں بڑے اداکاروں کو کورونا کے دنوں میں کورونا نے کچھ نہیں کیا، مگر ان کی لکھی تھی ،اور آگئی۔
میں کافی دیر دنیا کی اصل حقیقت کی گہرائیاں پڑھنے کی کوشش کرتا رہا اور پھر اداکار عرفان خان کا آخری خط میرے سامنے آگیا،جس نے میرے بہت سے سوالوں کے جواب دے دیے۔اس میں لکھا تھا کہ کچھ عرصہ قبل معلوم ہوا کہ میں نیورواینڈوکرائن کینسر میں مبتلا ہوں۔میرے ذہن کی لغت میں یہ ایک بالکل نیا نام تھا۔ مزید معلوم ہوا کہ یہ بیماری ہی نایاب ہے، یعنی کم معلومات اور زیادہ خدشات اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
گویا میں اس 'Trial and Error' کھیل کا حصہ بن چکا تھا۔میں تو کسی اور سمت گامزن تھا۔ ایک تیز رفتار ریل پر سوار،جس میں میرے پاس خوابوں، توقعات، منصوبوں، خواہشوں جیسا سامان تھا، لیکن اچانک ٹی سی نے پیچھے سے آکر میرا کاندھا تھپتھپا کر کہا، آپ کی منزل قریب آ چکی ہے، اترنے کی تیاری کیجیے!"میں بوکھلا سا گیا، میری سمجھ میں کچھ نہ آیا؛نہیں نہیں۔
۔۔ ابھی میرا اسٹیشن نہیں آیا!"نہیں، اس ریل کا یہی اصول ہے، اگلے اسٹیشن پر ہی اترنا ہوگا!"اور پھراسی لمحے مجھے اچانک احساس ہوا کہ ہم کسی بے وزن کارک کی طرح انجان سمندر میں بے سمت لہروں پر بہہ رہے ہیں، اس غلط فہمی میں کہ ہم ان لہروں پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔اس بدحواسی، ہڑبڑاہٹ اور ڈر میں گھبراکر میں اپنے بیٹے سے کہتا ہوں:’ میں فقط اتنا چاہتا ہوں کہ میں اس ذہنی کیفیت کو، اس ہڑبڑاہٹ، ڈر، بدحواسی کی حالت کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دوں۔
مجھے کسی بھی صورت میں اپنے پاوٴں چاہئیں، مجھے دکھ تکلیف رنج و الم کو اپنے اعصاب پر راج نہیں کرنے دینا‘میری تو بس یہی خواہش تھی، یہی ارادہ تھا!کچھ ہفتوں کے بعد ہاسپٹل میں بھرتی ہو گیا۔ بے انتہا درد میرے وجود میں تھا، اس کا تو اندازہ تھا ہی لیکن اس کی شدت سے واقفیت ابھی ہوئی۔سب کچھ بے سود رہا،نہ کوئی تسلی نہ دلاسہ، یوں کہ جیسے پوری کی پوری کائنات نے درد کا روپ دھار لیا ہو۔
درد جو اس لمحے خدا سے بھی زیادہ عظیم محسوس ہوا۔میں ناتواں، بے کس، بیزار حالت میں جس ہسپتال میں پہنچا وہاں اسی بے پروائی کے عالم میں معلوم ہوا کہ میرے ہسپتال کے بالکل سامنے لارڈز اسٹیڈیم ہے۔ میرے بچپن کے خوابوں کا مکہ! اسی درد کے حصار میں ہی گھرے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہاں ووین رچرڈس کا مسکراتا پوسٹر ہے جس کی جھلک میرے اندر کوئی بھی احساس پیدا نہ کر سکی۔
یوں کہ جیسے وہ دنیا کبھی میری تھی ہی نہیں، میں بالکل اس سے بے نیاز ہوں۔اسی درد کی گرفت میں جب میں اپنے ہسپتال کی بالکنی میں کھڑا تھا تو یہ احساس ہوا، جیسے موت اور زندگی کے اس کھیل کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے، سڑک کے اْس پار کھیل کا میدان ہے اِس طرف ہسپتال ہے، میں ہوں کہ ان میں سے کسی ایسی چیز کا حصہ نہیں جو متعین ہونے کا دعویٰ کرے،نہ ہاسپٹل اور نہ اسٹیڈیم۔
دل بول اٹھا؛"صرف بے ثباتی کو ہی ثبات ہے۔"اسی احساس نے مجھے سپردگی اور بھروسے کے لئے تیار کیا۔ اب چاہے جو بھی نتیجہ ہو، یہ چاہے جہاں لے جائے، آج سے 8 مہینوں کے بعد، یا آج سے 4 مہینوں کے بعد، یا پھر 2 سال، فکر رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگی اور پھر میرے دماغ سے جینے مرنے کا حساب نکل گیا۔پہلی بار مجھے لفظ " آزادی" کا احساس ہوا، صحیح معنی میں! ایک کامیابی کا احساس۔
اس کائنات کا یہ سچ میں میرے یقین کو کامل کرگیا اور اس کے بعد لگا کہ وہ یقین میرے جسم کے ریشے ریشے میں بھر گیا ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ وہ ٹھہرتا ہے کہ نہیں! فی الحال میں یہی محسوس کر رہا ہوں۔ اس سفر میں دنیا بھر سے لوگ میرے صحت مند ہونے کی دعا کر رہے ہیں، میں جن کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا، وہ سبھی الگ الگ جگہوں اور ٹائم زون سے میرے لئے عبادت کر رہے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ ان کی دعائیں بھی مل کر ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوگئی ہیں،جو کہ تیز رفتار زندگی کی روح کی مانند میرے دھڑ سے ہوتے ہوئے سر سے پھوٹنے لگی ہے۔یہ پھوٹنے لگی ہے کبھی کوئی کلی بن کر، کبھی کسی پنکھڑی کی طرح، کبھی ٹہنی اور کبھی شاخ کی طرح!میں ایک حسین اور پْرلطف احساس کے تابع انہیں دیکھتا ہوں۔ لوگوں کی نیک خواہشات، پرخلوص الفاظ سے پھوٹتی ہر ٹہنی، ہر پتی، ہر پھول میری زندگی کو حیرتوں، خوشیوں اور تجسس سے سرشار کیے جاتی ہے۔
اب احساس ہوتا ہے جیسے ضروری نہیں کہ لہروں پر تیرتے کارک کا ان پر اختیار بھی ہو!یہ تو یوں ہے کہ جیسے آپ فطرت کی آغوش میں جھول رہے ہوں۔ اس آخری خط کی گونج نے مجھے بہت سی فکروں سے آزاد کردیا۔ زندگی کی اصل حقیقت موت ہے،اور موت کی اصل زندگی۔