روشنیوں کا شہر آفتوں کی زد میں

اتوار 30 اگست 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

پاکستان کا سب سے بڑا شہرکراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا آج آفتوں اور مصیبتوں سے گھرا ہوا ہے۔کراچی ابھی کورونا کی آفت سے نکل نہیں پایا تھا کہ بارشیں خدائی قہربن کر برس رہی ہیں۔کراچی میںاس قدر شدید بارشیںہوئیں ہیں کہ نصف صدی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔موسلادھار بارشوں نے کراچی کو وینس بنا کر رکھ دیاہے، سیلابی ریلے کی شکل میں سڑکوں پر بہتا پانی سامنے آنے والی ہر شے کو اپنے ساتھ بہا کر لے جارہا ہے۔

شہر کی کچی بستی سے لے کرڈیفنس کا بنگلہ ہو یاکوٹھی سب بارشی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں،شہری اپنی جانیں بچانے کے لئے گھروں کی چھتوں اور بالائی منزلوں پر پناہ لئے ہوئے ہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے شہر کی یہ تباہی بارش سے نہیں بلکہ کسی سونامی کی وجہ سے ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

کراچی میں آنے والی یہ سونامی سمندر کی کئی کئی سو فٹ اونچی سمندری لہروں کی وجہ سے نہیں آئی بلکہ آسمان سے سونامی کی لہریں مسلسل برس رہی ہےں۔

محکمہ موسمیات کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ 230 اعشاریہ 5 ملی میٹر بارش پی اے ایف فیصل بیس پر ہوئی جبکہ سرجانی ٹاون میں 193 اعشاریہ1، کیماڑی میں 169 اعشاریہ 5 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
چار روز تک وقفے وقفے سے ہونے والی بارش کے پانی سے بجلی ،پینے کا پانی اور گیس کی سپلائی بند ہوچکی ہے،گھر،محلے ،گلیاں،سڑکیں ،انڈر پاس پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

کل تک جن سڑکوں پر موٹر سائیکلیں ،کاریں،بسیں دوڑتی تھیں آج انہی سڑکوں پر کاریں،بسیں تیرتی ہوئی نظر آرہی ہیں حتیٰ کی سڑکوں پر محرم کے جلوس کے سلسلے میں سڑکوں پر رکھے گئے کنٹینرز بھی کھلونوں کی طرح پانی میں تیر رہے ہیںجو شائدتیرتے تیرتے کسی سے ٹکرا کر حادثے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔حالات کا مکمل جائزہ لینے کے لئے حکومتی اداروں اور میڈیا کی رسائی تک ناممکن ہوچکی ہے۔

کچھ علاقوں کے گھر مکمل طور پرڈوب چکے ہیںجس کی وجہ سے ان علاقوں کے رہائشی اپنے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔
سمندر کے پاس بسنے والے اس شہر کو ہمیشہ سے پینے کے پانی کی قلت کا سامنا رہا ہے۔شہر کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لئے حب ڈیم کا سہارا لیا گیامگر بدقسمتی سے اس کا پانی بھی ڈیڈ لیول تک پہنچ چکا گیا۔حب ڈیم آخری مرتبہ سال 2007 میں مکمل طور پر بھرا تھا لیکن اب حالیہ بارشوں کی وجہ سے حب ڈیم تیرہ سال بعد مکمل طور پر بھر گیا ہے۔

کراچی واٹر بورڈ ذرائع کے مطابق حب ڈیم میں پانی کا ذخیرہ اتناہوچکا ہے کہ اگر آئندہ برسوں میں بارشیں نہ بھی ہوں تواگلے تین سال تک کے لیے کراچی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہے۔حب ڈیم پانی سے مکمل طور بھرنے کی وجہ سے ڈیم کے نیچے کی آبادیاںخالی کرائی جا رہی ہیں کیونکہ اسپل ویز سے پانی کے ازخود اخراج سے قبل حب ڈیم کے ہنگامی گیٹ کھولے جاسکتے ہیں۔

حب ڈیم مکمل بھرنے پر اضافی پانی حب ندی کے راستے سمندر میں گرنے لگتا ہے۔
ایک طرف دنیا بھر کا میڈیا کراچی میں برپا قیامت خیزی دکھا رہا ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پرحسب معمول اس تباہی پر چٹکلے اور جعلی ویڈیو کلپس وائرل کئے جارہے ہیں۔کراچی کے شمال مغرب میںمشہور صوفی بزرگ حضرت منگھوپیرؒ کا مزار ہے۔ مزار سے ملحقہ ایک تالاب میں درجنوں مگرمچھ موجود ہیں جن کو بابا کے مگرمچھ کہا جاتا ہے۔

یہاں یہ مگرمچھ کئی سو سال سے موجود ہیں اور انسانوں سے مانوس ہوچکے ہیں۔سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل کی گئی ہے جس کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ بارشی پانی کے ریلے میں بہہ کر منگھو پیر کے مگرمچھ مزار سے باہر نکل آئے ہیں حالانکہ یہ بھارتی ریاست گجرات کی ایک پرانی ویڈیو تھی جس میں مگرمچھ کو پکڑنے کی کوشش کی جارہی تھی۔کسی نے ویڈیو ایڈیٹ کر کے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردی جو چند لمحوں میں وائرل ہوگئی،لاکھوں افراد نے اس ویڈیو کودیکھ کر خوف اور حیرت کے ملے جلے ریمارکس دیئے۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر کراچی کی تباہی پر مذاق اڑاتے ہوئے کراچی کی 1960 کی ایک تصویرشیئر کی گئی جس میں ایسے ہی حالات تھے جیسے اب بارش کی وجہ سے نظر آرہے تھے۔تصویر میں مذاق کے ساتھ تنقید کی گئی تھی کہ اتنے برس گذرنے کے باوجود کراچی کی حالات جوں کے توں ہیں۔ خیر کراچی کے جو حالات اس وقت ہوچکے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے وفاق اور سندھ کی حکومت کوموثرپالیسی اپناتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ کراچی پھر کبھی دوبارہ نہ ڈوب سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :