عثمان بزدار درندوں کے تعاقب میں

اتوار 13 ستمبر 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

لاہور سیالکوٹ موٹروے پر9اور 10ستمبر کی درمیانی شب انتہائی دلخراش واقعہ رونما ہوا، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔اس واقعہ پر ہر پاکستانی خواہ وہ مرد ہو یا عورت سب کی ہمدردیاں گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کے ساتھ ہے جبکہ ہر کوئی یہ بھی مطالبہ کررہا ہے کہ واقعہ میں ملوث ،لزمان کوجلد گرفتار کرکے قرارواقعی سزا دی جائے۔

اس واقعہ پر اگر خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا تو وہیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ارباب اختیار کی توجہ اس جانب دلائی کہ پاکستان میں امریکہ یا بھارت کی طرح خواتین کی سڑکوں پر پامالی اس پاک دھرتی پر ہونے نہیں دیں گے۔اب تک کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ کرول جنگل کتنا خطرناک جنگل ہے اور یہ جنگل اس لئے خطرناک نہیں کہ یہاں جنگلی جانور پائے جاتے ہیں بلکہ اس جنگل کی آڑ میں انسانی درندوںنے جس طرح ایک خاتون کے جسم کی بوٹیاں اس کے بچوں کے سامنے نوچیں شائد اس جیسی درندگی کسی جانور نے بھی نہ کی ہوگی۔

(جاری ہے)


واقعہ سوشل میڈیا،الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں آنے کے بعد لوگ کورونا تک کو بھول گئے،ہر کوئی اس واقعہ کی گہرائی میں اس قدر کھو گیا کہ جیسے کوئی اپنا ہو حالانکہ اس سے قبل بھی کئی ڈکیتی کے واقعات ہوچکے ہیں،دنیا میںکئی گینگ ریپ کے واقعات بھی ہوئے لیکن معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں کے ساتھ گھناونی و شرمناک حرکت ،نہ جانے کیسے اس زمین نے برداشت کرلی،نہ جانے کیسے جنگل کے درختوں نے یہ منظر دیکھا ہوگا،رات کی سیاہ تاریکی بھی اپنا منہ چھپاتی ہوگی۔

یہ کیسے درندے تھے جو جسم کو نوچ کر جنگل میں یوں غائب ہوگئے جیسے کوئی انسان نہیں بلکہ بھوت ہوں ۔
پولیس کی اب تک کی رپورٹ کے مطابق موٹر وے گینگ ریپ میں ملوث دونوں ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ میچ ہو گئے ہیں،دونوں ملزموں کی شناخت عابد اور و قا ر کے ناموں سے ہو گئی ہے پولیس نے گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کی گاڑی سے ڈی این اے سیمپل حاصل کئے جن کو لیبارٹری میں بھیجا گیا، لیبارٹری سے حاصل ہونیوالی رپورٹ کے مطابق ملزموں کی شناخت عابدعلی جس کا تعلق فورٹ عباس ضلع بہاولنگر کے گاؤں جبکہ دوسرے ملزم کا نام وقار الحسن ہے جو شیخوپورہ کا رہائشی ہے۔

پولیس نے دونوں ملزمان کی گرفتاری کیلئے ٹیمیں خصوصی تشکیل دیدی ہیں جبکہ ملزمان تک رسا ئی کیلئے ملزمان کے خاکے بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔بتایا جارہا ہے کہ دونوں ملزمان عادی مجرم ہیں۔ملزم عابد اس سے پہلے ایک خاتون اور اس کی بیٹی کیساتھ بداخلاقی میں بھی ملوث پایا گیا تھاجبکہ دونوں ملزمان ڈکیتیوں کی متعدد وارداتوں میں بھی جیل جا چکے ہیں۔

کر یمنل ڈیٹا بیس میں عابد علی 2013ء سے موجود ہے۔ 2013 ماہ جون میں ملزم عابد اپنے 4 ساتھیوں کے ہمراہ محمد شکور نامی دیہاتی کے گھر گھس گیا تھا اور اسلحہ کے زور پر اہل خانہ کو یرغمال بنا کر رسیوں سے باندھ دیا تھا، اس وقت کی ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے گھر میں موجود ماں بیٹی کو اجتماعی بداخلاقی کا نشانہ بنایا اور فرار ہو گئے، اہل علاقہ نے ملزمان کو علاقہ بدر کرنے پر مجبور کر دیا تھا،جس کے بعد وہ اہل خانہ کے ہمراہ چھانگامانگا میں رہنے لگا۔

تفتیش کے دوران یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ملزم عابد کے نام موبائل ٹیلی فون کی 4سمیں تھیں لیکن وہ انہیں استعمال نہیں کر رہا تھا، ملزم عابد کا ایک اور نمبر ملا جس کی مدد سے دوسرے ملز م وقار الحسن کا بھی سراغ ملا جو کہ ملزم عابد کا ساتھی ہے۔دونوں ملزمان ابھی فرار ہیں۔
اس اندوہناک واقعہ کے فوراً بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے ذاتی طو رپر اس کیس پر ہونے والی پیشرفت کی نگرانی شروع کردی تھی۔

وزیر اعلیٰ موٹر وے کیس سے متعلق پل پل کی رپورٹ لے رہے ہیں،72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ملزمان تک پہنچنا ،پنجاب حکومت کی بڑی کامیابی ہے ، ایسا لگ رہا جیسے وزیر اعلیٰ عثمان بزدارخود مجرموں کے تعاقب میں لگے ہوئے ہیں اور جلد انھیں پکڑ کر عبرت کا نشان بنائیں گے۔وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر پنجاب پولیس کی ہیلپ لائن 15اورپنجاب ہائی وے پٹرولنگ کی ہیلپ لائن 1124کو موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن 130 کے ساتھ منسلک کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔

لاہور سیالکوٹ موٹروے پر موٹروے پولیس کی تعیناتی تک پنجاب پولیس فرائض سرانجام دے گی۔لاہور سیالکوٹ موٹروے پر پنجاب ہائی وے پٹرولنگ، سپیشل پروٹیکشن یونٹ اور ایلیٹ فورس کو تعینات کر دیا گیا ہے اور لاہور سیالکوٹ موٹروے کے 91کلومیٹر روٹ کو 3بیٹ میں تقسیم کیاگیاہے جبکہ ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے والوںکو 25،25لاکھ روپے انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ اس واقعہ سے متعلق سارا دن اہم اجلاس کے علاوہ لمحہ بہ لمحہ واقعی کی رپورٹ لیتے رہے اور ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدامات کرتے رہے۔بلاشبہ پنجاب حکومت اس کیس پر پوری طرح فوکس کئے ہوئے ہے۔-انسپکٹرجنرل پنجاب پولیس انعام غنی کا کہنا تھاکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اصل ملزمان تک پہنچنے میں پوری سپورٹ دی او ران کی رہنمائی میں ہم اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔

پنجاب حکومت نے اس کیس کی تفتیش کے حوالے سے 28ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں ۔موٹر وے گینگ ریپ کیس حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج کیس بن گیا ہے،سب کی نظریں اس کیس پر ہیں اور سب یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ پنجاب حکومت جلد درندہ صفت انسانوں کو قانون کے کٹہرے میںلاکھڑا کرے گی۔عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ انسانیت کو روندنے والے حیوانوںکو ایسی سزا ملنی چاہیئے کہ پھر کبھی کوئی ماں ،کوئی بہن ،کوئی بیٹی ہوس کے پچاریوں کا نشانہ نہ بن سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :