سموگ کو جنم دینے والے انڈین کسان ہیں

اتوار 8 نومبر 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

صوبائی محکمہ لائیو سٹاک نے خبردار کیا ہے کہ سموگ کی وجہ سے جس قدر خطرہ انسانوں کو ہے اس سے کہیں زیادہ خطرہ جانوروں اور مویشیوں کو ہے حالانکہ مویشیوں میں موسم کی بدلتی صورتحال کو برداشت کرنے کی طاقت ہوتی ہے ۔شدید سردی میں جب ہم گھر کے اندر ہیٹر لگا کے بیٹھے ہوتے ہیں تب مویشی کھلے آسمان تلے یا معمولی سے شیڈ کے نیچے موسم کی سردی برداشت کر رہے ہوتے ہیں اسی طرح گرمیوں میں بھی مویشی جانور کسی کو شکایت کئے بناء گرمی برداشت کر لیتے ہیں لیکن سموگ نے انسان تو انسان جانور تک کو بھی نہیں چھوڑا کیونکہ سموگ دھند اور دھوئیںکا ایسا مرکب ہے جس نے حالیہ چند دنوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کو سانس ،گلے خراب اور سینے کی بیماریوں کا مریض بنا دیا ہے یہی نہیں سموگ کی وجہ سے پھیلے ہوئے دھوئیں کی وجہ سے جانور، مویشی، مرغیاں د گھٹنے سے ہلاک ہورہی ہیں اسی لئے مرغبانی اور ڈیری فارم سے وابستہ افراد کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

(جاری ہے)

ایک طرف ہسپتالوں میں سموگ سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تودوسری جانب ویٹرنری کلینکس میں سموگ سے متاثرہ جانور، مویشی، مرغیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ جونہی دوائی کا اثر ختم ہوتا ہے تو انسان تو انسان ،جانور بھی پھر سے بیمار پڑجاتے ہیں بلکہ اب تو دم گھٹنے کی وجہ سے مویشی ہلاک ہونے لگے ہیں۔انسانوں نے تو سموگ سے بچنے کی کچھ تدبیریں اپنا لی ہیں لیکن جانوروں اور مویشیوں کو سموگ سے بچانے کے لئے حکومتی اور انفرادی سطح پر کوئی خاص اقدامات نہیں کئے جارہے۔

مویشی رکھنے والے مالکان کے پاس اس قدر وسائل نہیں کہ وہ اپنے مویشیوں کو سموگ سے بچانے کے لئے کھلے ہال تعمیر کرواسکیں اس لئے بہت بڑی تعداد میں مویشی کھلے آسمان تلے بندھے ہیں اور سموگ سے دم گھٹنے کی وجہ سے ایک ایک کرکے ہلاک ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان میں سموگ کا سب سے بڑا حملہ لاہور شہر پر ہوا ہے جہاں ایئر کوالٹی جان لیوا حد تک آلودہ ہوچکی ہے۔

دنیا بھر کے ممالک کے مقابلے میں پاکستان اور انڈیا میں سموگ کا زور زیادہ ہے۔سموگ حالیہ چند برسوں سے شروع ہوئی ہے اس قبل کسی نے سموگ کا لفظ تک نہیں سنا تھا ،لوگ صرف ماحولیاتی آلودگی کو ہی جانتے تھے لیکن کسے پتہ تھا کی ماحولیاتی آلودگی کا ایک جزو سموگ اتنی اہمیت اختیار کرجائے گا کہ ماحولیاتی آلودگی کا نام برائے نام ہی رہ جائے گا اور اس کی جگہ سموگ کو عالمی شہرت مل جائے گی۔

کورونا وائرس کے بعد سب سے زیادہ وبائی امراض میں سموگ کا نام لیا جارہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ سموگ دھوئیں اور دھند کا مرکب ہے اور یہ دھواں کسی بھی چیز کا دھواں ہوسکتا ہے مثلا گاڑیوں کا دھواں بھٹوں کا دھواں وغیرہ۔ایک تحقیق کے مطابق چند سال قبل جب انڈیا کے کسانوں نے اپنی فصلوں کی بڑی تعداد میں باقیات کو جلانا شروع کیا تو اس کے نتیجہ میں سموگ نے صحیح معنوں میں جنم لیا اس سے قبل ٹریفک اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کو ماحولیاتی آلودگی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

اگرچہ انڈیا روایتی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے اس بات کو ماننے سے انکار کردیتا ہے کہ انڈین کسان ہر سال فصلوں کی باقیات کو جلا دیتے ہیں جس سے فضاء میں بے حد دھواں پیدا ہوچکا ہے جو اب تحلیل نہیں ہورہا بلکہ مزید بڑھ رہا ہے۔انڈیا چاہے مانے یا نہ مانے لیکن دنیا بھر کے سائنس دان اپنی رپورٹ میںاس بات کا انکشاف کر چکے ہیں کہ سموگ انڈین کسانوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

دوسری جانب مودی حکومت سموگ کے خاتمے پر کام کرنے کی بجائے پاکستان کے خلاف سازشیں تیار کرنے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کرنے پر لگی رہتی ہے۔اقوام متحدہ اور ماحولیاتی آلودی کی عالمی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ نسل انسانی کی بقاء کے لئے مودی حکومت پر زور دے کہ وہ فصلوں کی باقیات کو جلانے کی بجائے اسے ٹھکانے لگانے کے انتظامات کرے اگر جلد ہی اس عفریت پر قابو نہ پایا گیا تو زمین کے گرد آکسیجن کی تہہ کم ہوتی جائے گی اور یہ تو سب بخوبی جانتے ہیں کہ آکسیجن کے بغیر زندگی زندگی نہیں بلکہ موت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :