جامعہ پنجاب میں کشمیر اور ابلاغیات پر ایک نشست

منگل 2 مارچ 2021

Dr Lubna Zaheer

ڈاکٹر لبنی ظہیر

 ہر سال 5 فروری کو ہم یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں۔ اس دن مسئلہ کشمیر کے تناظر میں مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔بھارتی افواج کے مظالم اور بربریت کا تذکرہ ہوتا ہے۔مظلو م کشمیریوں کے حق میں تقاریر ہوتی ہیں۔ بیا نات اور پیغامات جاری کئے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مذاکرے اور مباحثے ہوتے ہیں۔ٹیلی ویژن چینلوں پر خصوصی ٹاک شوز کا اہتمام ہوتا ہے۔

اخبارات میں اداریے اور کالم لکھے جاتے ہیں۔ 5 فروری کا دن گزرنے کے بعد، ہم مسئلہ کشمیر کو یاد تو رکھتے ہیں، مگر وہ گرم جوش سرگرمیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں جو یوم کشمیر کیساتھ مخصوص ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کراکثرخیال آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ مسئلہ کشمیر کے ضمن میں ہونے والی سرگرمیاں سارا سال جاری رہیں۔

(جاری ہے)

تاکہ یہ معاملہ ہم پاکستانیوں، خاص طور پرنوجوان نسل کے ذہنوں میں تازہ رہے۔


چند روز قبل جامعہ پنجاب کے ادارہ علوم ابلاغیات کے زیر اہتمام مسئلہ کشمیر پر ایک نشست منعقد ہوئی۔( ادارہ علوم ابلاغیات کو اپ۔گریڈ کر کے اسکول کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ انفارمیشن اینڈ میڈیا اسٹڈیز کے نام سے باقاعدہ ایک فیکلٹی کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر پھر سہی)۔ اس ادارے میں استاد محترم پروفیسر مغیث الدین شیخ مرحوم باقاعدگی سے سقوط ڈھاکہ اور یوم یکجہتی کشمیر پر تقریبات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد رفتہ رفتہ یہ روایت معدوم ہوتی چلی گئی۔ اس مرتبہ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ جامعہ پنجاب نے مسئلہ کشمیر کا تذکرہ فقط 5 فروری تک محدود نہیں رکھا۔بلکہ فروری کے پورے مہینے میں کشمیر کے حوالے سے مختلف سرگرمیاں ہوتی رہیں۔جامعہ پنجاب نے الحمراء آرٹس کونسل کے تعاون سے باقاعدہ تین دن مسئلہ کشمیر کے لئے مخصوص کئے۔

تصویری نمائش، تقاریر اورمذاکروں کے ذریعے بھارتی مظالم اور نہتے کشمیریوں کی بے بسی کو اجاگر کیا۔ جامعہ میں ڈاکٹر عابدہ اعجاز کی سربراہی میں قائم ہیومن رائٹس چیئر کے زیر اہتمام ایک عمدہ ویب سیمینار کا انتظام کیا گیا، جس میں نہایت پر مغز گفتگو ہوئی۔ کشمیر پر دستاویزی فلم اور ڈرامے بنائے گئے۔ جامعہ کے ایک پروفیسر سے میں نے عرض کیا کہ پنجاب یونیورسٹی میں تواتر سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سرگرمیاں دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔

کہنے لگے کہ مسئلہ کشمیر وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر کے دل کے بہت قریب ہے۔ وہ ان سرگرمیوں کے انعقاد میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں۔ کشمیر پر ہونے والا یہ سیمینار بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
آزاد جموں و کشمیر کے صدر، سردارمسعود خان اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ سردار صاحب نہایت منجھے ہوئے سفارت کار ہیں۔آپ بہت اچھے سپیکر ہیں۔ انگریزی اور اردو زبان میں نہایت روانی اور عمدگی سے گفتگو کرتے ہیں۔

مجھے کئی بار بطور صدر ان کا ٹی۔وی انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔اندازہ ہوا کہ مسئلہ کشمیر سے وہ نہ صرف بخوبی آگاہ ہیں ،بلکہ ا س مسئلے کو اجاگر کرنے کیلئے عملی طور پر متحرک بھی رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کا صدر بننے کے بعد انہوں نے دنیا کے اہم ممالک کے دورے کئے۔ ان ممالک کی با اثر سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں اور شخصیات کیساتھ مباحثے کئے۔ان کے سامنے نہتے کشمیریوں کا مقدمہ پیش کیا۔

کرونا کے ہنگام بھی صدر صاحب نے آن۔ لائن ملاقاتوں اور مباحثوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
 جامعہ پنجاب میں ہونے والے کشمیر سیمینار کیلئے وہ آزاد کشمیر سے خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔ حاضرین میڈیا اور ابلاغیات کے طالب علموں پر مشتمل تھے۔سردار صاحب نے مسئلہ کشمیر اور میڈیا کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی۔ نوجوانوں کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت سے آگاہ کیا۔

بتایا کہ کس مشقت سے قائداعظم نے پاکستان حاصل کیا تھا ۔ بصورت دیگر آج ہم بھی بھارتی مظالم کا نشانہ بن رہے ہوتے۔ انہوں نے تہاڑ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی کشمیری رہنما آسیہ اندرابی کا ذکر کیا۔ اس ساٹھ سالہ خاتون کا جرم فقط یہ کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ اس نعرے پر اسے غدار قرار دے دیا گیا۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کا تذکرہ کیا۔

جو بلٹ اور پیلٹ کے سامنے سینہ تان کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔کشمیری رہنما شبیر شاہ کا ذکر کیا جنہوں نے تحریک آزادی کشمیر کیلئے تقریبا تیس برس جیل کاٹی۔ صدر صاحب نے نوجوانوں کو نصیحت کی کہ انہیں مظلوم کشمیریوں پر بیتنے والے ان مظالم کا ادراک ہونا چاہیے۔ کہا کہ پاکستان کی ترقی اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :