بروٹس سے میر جعفر تک

جمعرات 1 اکتوبر 2020

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

ایک وقت تھا سوشل میڈیا کااستعمال صرف پڑھا لکھا طبقہ کیا کرتا تھا وہ بھی صرف کام کے سلسلے میں کسی طالب علم نے اپنی پڑھائی کے متعلق معلومات لینی ہوں اور وہ لائبریری نہ جا سکتا ہو تو سوشل میڈیا اس کے لئے انتہائی آسان ذریعہ ثابت ہوا ہے یا کسی پروفیسر صاحب نے اپنے لیکچر کی تیاری کرنی ہو۔ اسی طرح ڈاکٹر،انجینئر، صحافی برادری، وکلاء اور ایسے ہی بہت سے پڑھے لکھے لوگ اس میڈیا کو علم حاصل کرنے، تحقیق کرنے، اپنے علم میں اضافے اور نکھار پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔

جب سمارٹ فون نہیں تھا کمپیوٹر یا ایسے ہی استعمال کی دوسری اشیاء صرف پڑھے لکھے اور امیر لوگوں کے پاس ہوا کرتی تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سب سامان معلومات کے علاوہ انٹرٹینمنٹ کیلئے بھی استعمال ہونے لگا اور اس سہولت سے ہر خاص و عام فائدہ اُٹھانے لگا۔

(جاری ہے)

بات کچھ آگے بڑھی تو تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اسے استعمال کرنے لگے۔

ایک وقت تھا کہ اسے صرف لڑکے استعمال کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ لڑکیاں بھی اس میدان میں کود پڑیں۔اب یہ حال ہے کہ اس میڈیا کو معلومات اور علم حاصل کرنے سے زیادہ انٹرٹینمنٹ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے استعمال کرنے والے یہاں تحریر پڑھنے سے زیادہ تصاویر اور ویڈیوز دیکھتے ہیں ۔اس وقت پاکستان کی کل آبادی تقریباً 22 کروڑ ہے اور خواتین کو آبادی کا نصف کہا جائے تو وہ بچی جسکی عمر ایک دن سے لیکر 90 سال تک کی بزرگ خاتون تک پاکستان میں خواتین کی تعداد 11 کروڑ بنتی ہے مگر سوشل میڈیا کااستعمال پاکستان میں تقریباً 2 سے 4 کروڑ کے درمیان خواتین کرتی ہیں مگر ایک اندازے کے مطابق سوشل میڈیا پر پاکستانی خواتین کی تعداد تقریباً 16 کروڑ ہے تو باقی کی خواتین کون ہیں یہ پاکستان سے باہر کے لوگ شاید نہ جانتے ہوں مگر اس حقیقت سے پاکستانی اچھی طرح واقف ہیں۔

سوشل میڈیا کااستعمال پوری دنیا کر رہی ہے۔ باہر کے لوگوں کو اگر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں(مطلب دھوکہ دینا)ہم سے کہیں پیچھے ہیں۔ غلط نام،غلط ایڈریس دوسروں سے جھوٹ بولنا،جھوٹی تصاویر لڑکے لڑکیوں کے نام پر اکاؤنٹ بنا کر لڑکیوں سے دوستی کرتے ہیں اور لڑکی بن کر لڑکوں سے بھی دوستی کی جاتی ہے اور پھراس دوستی کی آڑ میں کیا کچھ کیا جاتا ہے اس بارے میں جاننے لگو تو ایسے ایسے ہوشربا انکشافات سامنے آتے ہیں جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟۔

قارئین اکرم آپ یقیناً میری بات سمجھ رہے ہوں گے کیونکہ کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کو احاطہ تحریر میں لانا قلم،کاغذ اور الفاظ تینوں کے تقدس اور احترام کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے لوگ اپنے نام سے اکاؤنٹ بناتے ہیں وہ جیسے بھی ہیں، جیسا بھی سوچتے ہیں، وہ نظر بھی وہی آتے ہیں۔ ان کا اکاؤنٹ ان کی شخصیت اور سوچ کی ترجمانی کرتا ہے۔

چاہے اچھا ہے یا برا۔۔ ۔وہ سب اندر باہر سے ایک جیسے ہیں مگر پاکستانی وہ واحد قوم جو نظر کچھ آتی ہے اور اندر سے ٹٹولنے کی کوشش کریں تو ایک نیا روپ سامنے آتا ہے۔ تاریخ کے اوراق کو الٹایا جائے تو دنیا میں تین ایسے بڑے دھوکے باز ہیں جنہیں انسانیت تا قیامت یاد رکھے گی۔ سب سے پہلے کا تعلق یونان سے ہے ۔بروٹس سیریز کا سب سے زیادہ بااعتماد ساتھی تھا مگر اس نے غداری کی۔

یونان کی تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ سیاہ الفاظ میں تحریر کیا جائیگا ۔اسلامی تاریخ میں سیاہ نام عبداللہ بن ابی جس نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ ایسے ایسے کام کیے جنہیں اسلام تو کیا باقی دنیا بھی یاد رکھے گی۔ ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ نام میر جعفر جہاں ہندوستان کی تاریخ ٹیپو سلطان کی بہادری اور ان کا قول ''شیر کی ایک دن کی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے''یاد رکھے گی وہیں میر جعفر کے سیاہ کردار کو بھی کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا مگر ان تینوں غداروں کو دیکھا جائے تو انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ اپنے کسی ٹھوس مفاد کیلئے کیا اور پھر خود کو فائدہ پہنچانے کی کوشش بھی کی مگر ہماری نوجوان نسل جعلی اکاؤنٹ کے ذریعے جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ سب سے زیادہ انہیں کو نقصان پہنچا رہی ہے ہمارا نوجوان اخلاقی اور روحانی کمزوریوں اور گراوٹ کا شکار ہو رہا ہے ہمارا نوجوان ہمارا مستقبل ہے اور وہ اس سب کے زریعے اپنے ساتھ غداری کر رہا ہے۔

زرا خود سوچیں اگر ہمارے مستقبل کے معماروں کو اپنے ہی اندر بروٹس،عبداللہ بن ابی اور میر جعفر سے خطرہ ہوا تو وہ پاکستان کی ترقی کی جنگ کیسے لڑ سکیں گے۔بقول شاعر
چڑھا منصور پھانسی پر،پکارا عشق بازؤں کو
یہ بیڑا ہے تباہی کا اٹھائے جس کا جی چاہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :