"بلوچستان میں طلبا کا احتجاج اور گرفتاریاں"

جمعہ 26 جون 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

کل بلوچستان کی تاریخ میں ایک بار پھر یہاں طلباء و طالبات پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے . تعلیم کے لیے احتجاج کرنے کے جرم میں طلباء و طالبات کو پابند سلاسل کیا گیا. اس واقعے کے پس پردہ عوامل پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں 3G انٹرنیٹ یا تو سرے سے موجود ہی نہیں یا پھر کئی علاقوں میں اس کی فراہمی کئی عرصے سے جان بوجھ کر  بند کی گئی ہے.

کورونا کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر جب تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے  ملک بھر میں آن لائن کلاسس کا سلسلہ چل رہا ہے تو  بلوچستان کے اسی فیصد سے زائد طلباء و طالبات اندرون بلوچستان انٹر نیٹ کی عدم فراہمی کی وجہ سے  اس سہولت سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں. اسی سلسلے میں جب انہوں نے احتجاج کیا تو نہ صرف  انتظامیہ کی جانب سے طلباء و طالبات پر لاٹھی چارج کرکے انہیں زندان میں ڈالا گیا بلکہ بلوچی رویات کو بھی پامال کیا گیا اور عورتوں کے سروں سے دوپٹے اتار کر  ان کو مارا پیٹا بھی گیا.

خواتین کے ساتھ  اس ناروا سلوک سے یہاں کے عوام میں سخت غم وغصہ پایا جارہا ہے .
بلوچستان میں تعلیم کی صورت حال کے حوالے سے  میں ماضی کے کچھ حادثات, حالات اور حقائق پر میں روشنی ڈالنا چاہوں گی.  جب جب یہاں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تب تب ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے یہاں تعلیم کو مزید آئی سی یو کی جانب دھکیل دیا.

کچھ عرصہ پہلے مکران کی طالبات میں جب تعلیمی شعور تیزی سے اجاگر ہونا شروع ہوا تو وہاں اس کام کے معاون خصوصی استاد کو موت کی گھاٹ اتارا گیا .کچھ عرصے کے بعد پنجگور میں تمام پرائیویٹ اسکولوں کو دھمکی ملنا شروع ہوگئیں, جس سے یہاں کے بچوں خاص کر بچیوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں. .اس کے بعد شدت پسند اسلامی تنظیم کی جانب سے  کوئٹہ میں معصوم طالبات سے بھری بس کو بروری روڈ پر خود کش حملے سے اڑا کر کئی گھروں کے چراغ ویران کیے گئے.

اسی سلسلے میں ایک اور تازہ ترین واقعہ پچھلے سال رونما ہوا جس میں یونیورسٹی کی طالبات کی ان کے اپنے ہی اساتذہ اور انتظامیہ کی جانب سے بلیک میلنگ کی وڈیو منظر عام پر آئیں اور واقعے کے پس منظر میں یہاں بھی  پرامن احتجاج کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا  اور بعد میں حکام بالا  کی جانب سے اس واقع کی کمیٹی بنا کر اسے تفتیشی فائلوں کی نذر کرکے بند خانوں میں ڈالا گیا اور واقع میں ملوث افراد کو بجائے سزا دینے کے انہیں مزید بہترین عہدوں سے نوازا گیا.

ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ بولان میڈیکل کالج کی طالبات کو رات کے دو بجے ہاسٹل بدر کر کے پرانی روایت دہرائی گئیں اور اب کے تو حد ہی پار کی گئی جب تعلیم کے حصول کے لیے پر امن احتجاج کرتی بچیوں کو میں شاہراہ پر پردہ دار خاتون پولیس اہلکار کی جانب سے  گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈالا گیا.
اس طرح کے واقعات سے یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاج کرنا جرم؟؟کیا تعلیم کا حق مانگنا جرم ہے؟؟ یا پھر بلوچستان میں یہ حق مانگنا جرم ہے؟؟
احتجاج کرنا انسانی فطرت کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ حسن بھی ہے اور یہ تب سے وقوع پذیر  ہورہی ہیں جب سے انسان کی پیداٸش ہورہی ہے .

نومولود بچہ ماں کی توجہ پانے کے لیے اور دودھ کی طلب کے لیے روتا ہے۔

(جاری ہے)

  جنت میں حضرت آدم اور بی بی ہوا کو جب گندم کے کھانے سے روکا گیا تو انسانی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ غلطی کر بیٹھے اور اس جرم کی پاداش میں جنت بدر کیے گئے. پھر یہ سلسلہ زمین پر انکے بیٹے ہابیل اور قابیل نے آگے بڑھایا اسی طرح چلتے چلتے احتجاج کی مختلف تحریکوں کی وجہ سے نسل آدم مختلف فرقوں اور طبقوں مں بٹ گٸی اور تاریخ کی ہولناک جنگیں وقوع پذیر ہوٸیں ۔
احتجاج کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب نا انصافی, ظلم و بربریت, اور حقوق  کی عدم فراہمی ہو تو انسان کے اندر برداشت کی حد ختم ہو جاتی ہے .

اور وہ احتجاج پر مجبور ہوجاتا ہے.احتجاج کی کئی قسمیں ہیں , جن میں علامتی احتجاج , پرتشدد احتجاج , کل وقتی احتجاج ,اور بھوک ہڑتال وغیرہ آتے ہیں .
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ایک جمہوری ملک ہے جس کے آئین میں یہاں کے عوام کو احتجاج کا مکمل حق حاصل ہے .
مگر بلوچستان میں تو جائز حقوق کا پر امن طریقے سے تقاضا کرنا بھی جرم  ٹہرا ہے.

میں بلوچستان اس لیے کہہ رہی ہوں کہ جب موجودہ حکومت نے پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں ایک سو بیس دنوں کا جو  دھرنا دیا اور پورے ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پرکھڑا کیا, وہ قابل برداشت تھا . اس کے علاوہ مختلف پارٹیوں نے مختلف اوقات میں احتجاج کیے وہ قابل برداشت تھے اس لیے کے وہ سب ذاتی مفادات کے لیے تھے . مگر یہاں حصول تعلیم کے لیے کیا گیا  احتجاج جرم اور گناہ عظیم ٹہرتا ہے .
اس سلسلے میں اگر امریکہ پر نظر دوڑائیں تووہاں ایک  سیاہ فام امریکی شہری جارج فلآئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد ملک گیر احتجاج اور ہلاکت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک کنٹرول سے باہر ہے.

یہ اس امر کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ جارحیت اور بربریت جہاں بھی حد سے باہر ہوجائے تو قومیں زوال کی طرف بڑھتی ہیں.
اس واقعے کے ذمہ داران سے میری گزارش ہے کہ ہوش کے ناخن لیں اور عوام کے مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش کریں بجائے اس کے کہ ان کو مزید بڑھائیں کیونکہ یہی عوامل آگے چل کر علحیدگی پسند تحریکوں کو ہوا دیتے ہیں اور عوام کو مجبورا غلط ہاتھوں کا آلہ کار بننا پڑتا ہے. ملک کی طاقت عوام کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے کے بجائے انہیں متحد کرنے کی کوشش کریں کیوں ملک کی اہم ضرورت بھی متحد رہنے میں مضمر ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :