
"بلوچستان میں طلبا کا احتجاج اور گرفتاریاں"
جمعہ 26 جون 2020

ڈاکٹر راحت جبین
بلوچستان میں تعلیم کی صورت حال کے حوالے سے میں ماضی کے کچھ حادثات, حالات اور حقائق پر میں روشنی ڈالنا چاہوں گی. جب جب یہاں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تب تب ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے یہاں تعلیم کو مزید آئی سی یو کی جانب دھکیل دیا. کچھ عرصہ پہلے مکران کی طالبات میں جب تعلیمی شعور تیزی سے اجاگر ہونا شروع ہوا تو وہاں اس کام کے معاون خصوصی استاد کو موت کی گھاٹ اتارا گیا .کچھ عرصے کے بعد پنجگور میں تمام پرائیویٹ اسکولوں کو دھمکی ملنا شروع ہوگئیں, جس سے یہاں کے بچوں خاص کر بچیوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں. .اس کے بعد شدت پسند اسلامی تنظیم کی جانب سے کوئٹہ میں معصوم طالبات سے بھری بس کو بروری روڈ پر خود کش حملے سے اڑا کر کئی گھروں کے چراغ ویران کیے گئے. اسی سلسلے میں ایک اور تازہ ترین واقعہ پچھلے سال رونما ہوا جس میں یونیورسٹی کی طالبات کی ان کے اپنے ہی اساتذہ اور انتظامیہ کی جانب سے بلیک میلنگ کی وڈیو منظر عام پر آئیں اور واقعے کے پس منظر میں یہاں بھی پرامن احتجاج کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور بعد میں حکام بالا کی جانب سے اس واقع کی کمیٹی بنا کر اسے تفتیشی فائلوں کی نذر کرکے بند خانوں میں ڈالا گیا اور واقع میں ملوث افراد کو بجائے سزا دینے کے انہیں مزید بہترین عہدوں سے نوازا گیا. ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ بولان میڈیکل کالج کی طالبات کو رات کے دو بجے ہاسٹل بدر کر کے پرانی روایت دہرائی گئیں اور اب کے تو حد ہی پار کی گئی جب تعلیم کے حصول کے لیے پر امن احتجاج کرتی بچیوں کو میں شاہراہ پر پردہ دار خاتون پولیس اہلکار کی جانب سے گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈالا گیا.
اس طرح کے واقعات سے یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاج کرنا جرم؟؟کیا تعلیم کا حق مانگنا جرم ہے؟؟ یا پھر بلوچستان میں یہ حق مانگنا جرم ہے؟؟
احتجاج کرنا انسانی فطرت کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ حسن بھی ہے اور یہ تب سے وقوع پذیر ہورہی ہیں جب سے انسان کی پیداٸش ہورہی ہے . نومولود بچہ ماں کی توجہ پانے کے لیے اور دودھ کی طلب کے لیے روتا ہے۔
(جاری ہے)
جنت میں حضرت آدم اور بی بی ہوا کو جب گندم کے کھانے سے روکا گیا تو انسانی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ غلطی کر بیٹھے اور اس جرم کی پاداش میں جنت بدر کیے گئے. پھر یہ سلسلہ زمین پر انکے بیٹے ہابیل اور قابیل نے آگے بڑھایا اسی طرح چلتے چلتے احتجاج کی مختلف تحریکوں کی وجہ سے نسل آدم مختلف فرقوں اور طبقوں مں بٹ گٸی اور تاریخ کی ہولناک جنگیں وقوع پذیر ہوٸیں ۔
احتجاج کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب نا انصافی, ظلم و بربریت, اور حقوق کی عدم فراہمی ہو تو انسان کے اندر برداشت کی حد ختم ہو جاتی ہے .
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ایک جمہوری ملک ہے جس کے آئین میں یہاں کے عوام کو احتجاج کا مکمل حق حاصل ہے .
مگر بلوچستان میں تو جائز حقوق کا پر امن طریقے سے تقاضا کرنا بھی جرم ٹہرا ہے. میں بلوچستان اس لیے کہہ رہی ہوں کہ جب موجودہ حکومت نے پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں ایک سو بیس دنوں کا جو دھرنا دیا اور پورے ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پرکھڑا کیا, وہ قابل برداشت تھا . اس کے علاوہ مختلف پارٹیوں نے مختلف اوقات میں احتجاج کیے وہ قابل برداشت تھے اس لیے کے وہ سب ذاتی مفادات کے لیے تھے . مگر یہاں حصول تعلیم کے لیے کیا گیا احتجاج جرم اور گناہ عظیم ٹہرتا ہے .
اس سلسلے میں اگر امریکہ پر نظر دوڑائیں تووہاں ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلآئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد ملک گیر احتجاج اور ہلاکت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک کنٹرول سے باہر ہے. یہ اس امر کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ جارحیت اور بربریت جہاں بھی حد سے باہر ہوجائے تو قومیں زوال کی طرف بڑھتی ہیں.
اس واقعے کے ذمہ داران سے میری گزارش ہے کہ ہوش کے ناخن لیں اور عوام کے مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش کریں بجائے اس کے کہ ان کو مزید بڑھائیں کیونکہ یہی عوامل آگے چل کر علحیدگی پسند تحریکوں کو ہوا دیتے ہیں اور عوام کو مجبورا غلط ہاتھوں کا آلہ کار بننا پڑتا ہے. ملک کی طاقت عوام کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے کے بجائے انہیں متحد کرنے کی کوشش کریں کیوں ملک کی اہم ضرورت بھی متحد رہنے میں مضمر ہے.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر راحت جبین کے کالمز
-
"سرطان کا عالمی دن"
جمعہ 4 فروری 2022
-
"کیا ہم مردہ پرست قوم ہیں؟"
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
"استاد اور معاشرتی رویہ"
منگل 5 اکتوبر 2021
-
لٹل پیرس کا گورنر ہاؤس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
یوم آزادی، کیا ہم آزاد ہیں ؟
بدھ 11 اگست 2021
-
شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے
بدھ 28 جولائی 2021
-
"عید الاضحی کے اغراض و مقاصد"
جمعہ 23 جولائی 2021
ڈاکٹر راحت جبین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.