کشمیر رائیٹرز فورم کی کاوشیں اور عام لکھاری

جمعرات 23 جولائی 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

جب سے میں نے یہ سنا ہے کہ کشمیر رائیٹرز فورم کا فیس بک اور واٹس اپ  گروپ ختم ہونے جارہا ہے تو عجیب سا لگ رہا ہے, جیسے کہ ہم سب کی ایک قیمتی شے ہاتھوں سے نکل رہی ہے کیونکہ کشمیر رائیٹر فورم ہمارے لیے جہاں ایک طرف مکتب خاص کا درجہ رکھتا ہے وہیں دوسری طرف اس نے ہمیں ایک الگ پہچان بھی دی . کشمیر رائیٹر فورم کم سے کم میری پہچان تو ضرور بن گیا ہے ,گھر میں ,رشتہ داروں میں, ادبی گروپوں میں اور دوستوں میں اور یہ سب میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا.

اس کا سارا کریڈٹ محترم رشید احمد نعیم  کو جاتا ہے کہ کس طرح آپ نے ہم سب کو ریسپیکٹ دے کر یہاں تک پہنچایا. آپ نے ہمیشہ مجھے اپنی بہن کا درجہ دیا .

(جاری ہے)


کشمیر رائیٹرز فورم کے قیام کا اصل مقصد ایک ایسے پلیٹ فارم کا بنانا تھا جہاں کسی بھی لکھاری کی تحریروں کو بغیر کسی سفارش اور انتظار کے مختلف اخبارات میں شائع کرانا ممکن ہو سکے . اس طرح ایک عام لکھاری کی مختلف اخبارات تک رسائی ممکن ہوگئی تھی.

کچھ ممبرز پوسٹ کا انتظار کرتے اور مخصوص ٹاپک پر قلم کشائی کرتے  اور کچھ کارڈ ہولڈرز ممبرز روزانہ کی بنیاد پر اپنی تجریریں چھپانے کے اہل ہوتے .اس سلسلے میں محترم رشید بغیر کسی ذاتی مفاد کے بے لوس کام کر رہے تھے.  دیکھنے میں جتنا یہ کام آسان نظر آتا ہے اتنا آسان نہیں ہے . سب سے پہلے تو سب ممبران سے تحریریں اکھٹی کرنا . پھر ان تحریروں کو یونیکوڈ سے ان پیج میں کنورٹ کرنا .

پھر سب کے الگ الگ کیٹیگری کی فائل بنانا, ان سب فائل کو مختلف اخبارات کے ایمیل پر سینڈ کرنا . پھر مختلف اخبارات کے پی ڈی ایف کا مطالعہ کرنا ,اپنے ایک ایک ممبر کی تحریریں وہاں سے اکھٹی کرنا , ان کی کلپنگ بنانا اور پیڈی ایف اور کلپنگ کو مجموعی طور پر اور انفرادی طور پر فیس بک اور واٹس اپ گروپ تک پہنچانا . یہ سب انتہائی محنت طلب مراحل ہیں اور مجموعی طور پر یہ کل وقتی جاب ہے اور ہر کوئی یہ ذمہ داری نبھا نہیں سکتا .
   میں کشمیر رائیٹرز فورم کے پلیٹ فار م سے گزشتہ اٹھارہ ماہ سے منسلک ہوں اور مارچ 2020 سے بطور ایڈمن فیس بک اور واٹساپ گروپ میں  اپنے فرائض انجام دے رہی ہوں .

ڈیلی کشمیر میں میرا عہدہ سینئر وائس پریزیڈینٹ کا ہے . پچھلے سال جنوری  میں, میں نے آئی سی سی کے نام سے ایک گروپ جوائن کیا . جہاں میری تحریریں شایع ہونا شروع ہوئیں .اس سے پہلے میری تحرہریں  روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ انتخاب میں کبھی کبھار لگتی تھیں .وہاں تحریر بھیجنے کے بعد میں بھول جاتی تھی اور اچانک سے کسی دن میری تحریر سامنے آجاتی مگر جب سے آئی سی سی جوائن کیا  تحریریں روز کی بنیاد پر مختلف اخبارات میں شایع ہونا شروع ہوئیں .

اسی وجہ سے میں نے کارڈ پر ممبر شپ لی  تاکہ یہ سفر زیادہ بہتر طریقے سے رواں ہو . اس سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ جہاں میں کبھی کبھار لکھتی تھی. پوسٹ اور ٹاپک کا انتظار کرتی تھی,  مسلسل لکھنے لگی اور میری تحریروں اور قلم میں روانی آئی .اس سفر میں کافی لوگوں نے کشمیر رائیٹرز فورم کی پالیسیوں پر  بےجا تنقید کی . پہلے  مجھے  آئی سی سی اور پھر کشمیر رائیٹرز فورم سے متنفر کرنے کی کوشش کی .

کچھ نے حد ہی کراس کی,  ادب سے وابسطہ ہونے کے باوجود اپنے بے ادب ہونے کی پہچان کرادی . کچھ نےطنزیہ  یہ کہا کہ آپ اس کی باقائدہ ممبر ہیں اور روز آپ کی تحریریں مختلف اخبارات میں شایع ہوتی ہیں ,تو کیا کبھی اتنے اخباروں میں سے کسی ایک کی ہارڈ کاپی کی شکل دیکھی ہے. اس وقت میں نے خاموش رہنا مناسب خیال کیا لیکن مجھے اس کے ہارڈ کاپیز کا بھی پتہ ہے اور پی ڈی ایف کاپیز کا بھی.

مجھے تو ان سب  کی سوچ پر افسوس ہونے لگا جو اس حد تک اس گروپ سے نہ صرف حسد کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں. حالانکہ جب سے میں نے فیس بک کے مختلف ادبی گروپ جوائن کیے ہیں ان میں بہت  سے گروپ کی پیڈ ممبر شپ ہے. کچھ گروپ اجتماعی امداد سے کتابیں شایع کرواتے ہیں.  اس کے علاوہ کچھ گروپ نے پیڈ  ممبرز  کو سہ ماہی بنیاد پر  کتابیں اور مجلے دینے  کا بھی کہا مگر چھ ماہ گزرنے کے بعد اب تک ایک بھی کتاب یا مجلہ نہیں آیا  ہے میرے پاس .

اس کے علاوہ ایک گروپ نے پیڈ ممبر ہونے کے باوجود ان چھ مہینوں میں اب تک میری صرف ایک ہی تحریر  شایع کی وہ بھی ویب سائیٹ پر جہاں آج کل تقریبا ہر لکھاری کی پہنچ ہے . اس کے علاوہ کچھ گروپس مختلف ادبی کورس کے نام پر پیسے بٹور رہے ہیں . میرا مقصد ان سب پر تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ وہ سب درست ہیں کیونکہ ایک لکھاری کو اپنا وقت دینے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ملنا چاہیے .

مگر انہی گروپس میں سے کچھ کشمیر رائیٹرز فورم پر تنقید کرنے والوں میں شامل تھے . ہحرحال جتنے منہ اتنی باتیں تھیں اور یہ سب ان کی کم ظرفی  اور حسد کا کھلا ثبوت ہیں .
محترم رشید احمد نعیم اس گروپ کے روح رواں ہیں اور اس گروپ کی کامیابیاں ان کی ان تک محنت کا منہ بولتا ٹبوت ہیں .مانا کہ سر کی اپنی نجی مصروفیات ان کو اجازت نہیں دے رہی ہیں کہ وہ اس گروپ کو مزید وقت دے سکیں .

لیکن اس گروپ سے وابستہ لوگ اس کمی کے  متحمل نہیں ہوسکتے. اس فورم کے ختم ہونے سے سفر تو نہیں رکے گا نہ محترم  رشید صاحب  کا اور نہ ہی کشمیر رائیٹرز کے ممبران کا مگر ہم سب ممبرز کو ادبی نقصان ضرور ہوگا جس کا ازالہ کرنا شاہد ہی ممکن ہو. اس سلسلے میں میری تمام مخلص ممبران کی جانب سے رشید صاحب   سے موودبانہ گزارش ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی ضرور کرلیں کیونکہ  ہم سب کو بطور استاد اور رہنما آپ کی بہت ضرورت ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :