لاہور سے لداخ تک

ہفتہ 30 مئی 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

قومیں آج کے دن اپنے کل اور آنے والے کل کے فیصلے کرتی ہیں اور ہم آج تک آپس میں دست و گریبان ہیں کہ ایٹمی دھماکے کس نے کئے اور اس کا سارا سہرا کس کے سر سجتا ہے-کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو ایٹم بم کی داغ بیل رکھنے پہ دار پہ جھولناپڑا اگر یہ سچ ہے تو پھر ان کے لئے تختہ دار تک کانٹے بچھانے والے ضیاء الحق صاحب نے کیوں اس پروگرام کو شد و مد سے جاری رکھا اور غلام اسحاق خان کو ہر طرح کی مالی امداد کی تاکید کرتے رہے- انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کے کان میں انہوں نے کیا کہا تھا کہ راجیو صاحب کے اوسان خطا ہو گئے تھے- بے نظیر بھٹو کا میزائل پروگرام اور ایٹمی ہتھیاروں کو ان کے نشانوں پہ داغنے کے لئے کی گئی کوششیں کس زمرے میں آتی ہیں- بے شک دھماکوں کا فیصلہ محترم نوا شریف صاحب نے ہی سنایا اور اس کا سہرہ ان کے سر ہی ہے لیکن ایسے میں باقی ہیروز کو کو فراموش کرکے ان کو نہ سراہنا اپنے گمنام سپوتوں سے زیادتی ہوگی-
گیارہ مئی سے تیرہ مئی کے درمیان اٹل بہاری واجپائی کے کئے گئے پانچ ایٹمی دھماکوں نے خطے میں طاقت کا توازن بدل دیا یہ وہ دن تھے جن دنوں روس کی جگہ چین سر اٹھا رہا تھا امریکہ بہادر کا خیال تھا کہ چین کا بندوبست اسی خطے میں ہی کیا جائے اور بھارت کو اتنا طاقتور بنا دیا جائے کہ وہ اس خطے کا چوہدری ہوپاکستان پہ دباؤ ڈالا گیا کہ اگر پاکستان کے پاس اٹیم بم ہے تو اس کو دھماکے نہ کرنے دیے جائیں اور وقت کے ساتھ عراق اور ایران بنا کے کے لاغر کر دیا جائے لیکن 28 مئی کو کئے گئے دھماکوں نے سب کی امیدوں پہ پانی پھر دیا 
 اب بھارت نے پینترہ بدلا اور وہی اٹل بہاری واجپائی انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے سرخیل فروری 1999ء کو لاہور پہنچے اور شانتی کا پیغام سنایا تاکہ اب گھی کسی طرح سیاسی انگلی سے نکالا جائے اور نوز شریف صاحب کے ساتھ لاہور اعلامیہ پر دستخط کئے 
 نیوکلئیرہتھیاروں سے اجتناب اور باہمی مسئلہ خود بیٹھ کے حل کرنے کا عندیہ دیا- اس فیصلے سے ایک تو شملہ معاہدے کی تجدید ہوئی جس کا فائدہ آج بھی بھارت اٹھاتا ہے اور کہتاہے کہ اسے ثالثی کے لئے نہ اقوام متحدہ درکار ہے اور نہ ہی کوئی اور ملک اٹل بہاری واجپائی اپنے تئیں سب کچھ جیت جیت کے گئے اور جاتے ہی اعلان کیا کہ کارگل سے لداخ تک سڑکوں اور انفرا سٹرکچر کو یوں تعمیر کیا جائے کہ 1962 ء سے چلتے چین کے ساتھ سرحدی تنازعے کو اپنا بنا کے دنیا کو دکھا دیا جائے کے سرحدی لائن کہ اس پار اس کا ہی قبضہ اور حکومت ہے-
 لائن آف ایکچوئل کنٹرول ہی دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول ہے-5 جنوری 1949 ء کو ہونے والا جنگی معاہدہ جس طرح بھارت کی جیت مانا جاتا ہے یہ اسی کا ایک شاخسانہ ہے-3 مئی 1999ء کی کارگل جنگ نے ان کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا اور یہ اصل چھرا بھارتی حکمرانوں کی کمر میں گھونپا گیا وہ زخم تھا کہ جس کے دوران چین نے لداخ پہ پیش قدمی کرکے یہ لائن اپنے حق میں بہتر کرلی اور بھارت کے قابض حصے کے اندر تک چلا گیا چین اپنے کل کی ضرورتیں جانتا تھا کہ کسی طرح اگر اسے اس کے جنوبی سمندروں میں محصور کر لیا گیا تو وہ بے بس ہو جائے گا شاہراہ ریشم کی حفاظت اس کی شہ رگ کی حفاظت تھی چین اپنا کام کر چکا تھا اس کے لئے اس نے سی پیک شروع کیا اور اپنی پہنچ گورادر کے ساحلوں تک لے گیا- اب جب کہ اسے اپنے جنوبی ساحلوں پہ آسٹریلیا، جاپان، امریکہ اور بھارت کا سامنا ہے وہیں یہ گوادر اس کی ترقی کی ضمانت ہے اگر لاہور معاہدے پہ عمل ہو جاتا تو ایک طرف چین اپنی اہمیت کھوتا تو دوسری طرف ہماری جغرافیائی اہمیت متاثر ہوتی بھارت کے لئے انقلاب روس کے بعد روس کی دوستی مفاد میں نہیں تھی وہ روس جس میں نیوکلیئر قوت تو تھی لیکن کھانے کے لئے ڈبل روٹی میسر نہ تھی چین کے خلاف امریکہ نے بھارت کو اپنا آلہء کار بنایا 
87 ارب ڈالرز کے جنگی ہتھیار بیچے اور انڈو پیسفک معاہدہ کر کے اس کو" کواڈ" معاہدے میں پرو کے (بھارت، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا کے درمیان معاہدہ) تائیوان اور ہانگ کانگ کے مسائل کو ہوا دی اس کرونا نے جہاں بہت سی امیدوں اور پیش بندیوں پہ قدغن لگائی وہیں چائنا کو نیپال میں سنبھلنے کا موقع دیا اب نیپال کا گریٹر نیپال کا دعویٰ اور جاری نقشہ بھارت کے لئے درد سر ہے 
 بھارت کو سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے خواب دکھانے والے اسے ممبر تو نہ بنا سکے لیکن وہاں لے گئے کہ جہاں انہیں روس کی حمایت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے- اب چائنا، برطانیہ اور فرانس تو امریکہ کی زبان بولتے ہیں لیکن روس اور چین کے تعلق اس ویٹو کی تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں کہ جس سے بھارت کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں- رہی سہی کسر امریکہ کی افغانستان میں درگت نے پوری کر دی ہے لداخ پہ قابض اور جنگ کی صورت میں کارگل اور سیاہ چن سے لائے گئے فوجی بھارت کی وہاں پوزیشن کمزور کرتے ہیں اورلداخ کے سولہ ہزار بلندی کے علاقے میں نئی فوج چڑھانے کے لئے پہلے سرد علاقون کی تربیت اور ان کی جسمانی قویٰ کو اس قابل بنانا ایک امتحان سے کم نہیں ہے نمستے ٹرمپ کہنے والا بھارت اب ٹرمپ کے نرغے میں پھنسا پھڑ پھڑا رہا ہے کہ جہاں اس کی بلند اڑان پہ چھائے گہرے بادل اس کی اپنی بقا ء کے لئے خطرہ بنتے جارہے ہیں 
کشمیر پہ جاری یلغار تو پاکستان کے ساتھ محدود جنگ اور لداخ و گلگت تک اس کی پہنچ کا سامان تھی لیکن میرے کشمیری بھائیوں نے تن تنہا اپنی خون سے یہ پسپائی بھارت کے مقدر میں لکھ دی ہے بی جے پی کا لاہور سے لداخ کا سفر شاید اب اسے اتنا تھکا دے گا کہ بغل میں رکھی چھری بھول کے اسے رام رام کے ورد یاد کروائے گا -
شکریہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :