جو آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

منگل 4 مئی 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

اندھیروں میں چلتے کسی نوکیلے پتھر یا کانٹے پہ پاوں آ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوتی لیکن پیچھے آنے والوں کے لئے دیا روشن کرنا اور اپنے حصے کی شمع جلانا ہی زندگی ہے ۔ یہ میری سعی  بھی اسی کوشش کی ایک کڑی ہے جس کا عنوان ہے
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
تاریخ گواہ ہے کہ کچھ فیصلے ضرب المثل بنتے زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی موت ایسے مرتے ہیں کہ وہ عدل کے چوراہے پہ ٹنگے اپنے منصفوں کا منہ چڑاتے ان کے لئے طمانچہ بن جاتے ہیں ۔

ہم نے بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد ان کے منصفوں کو شرمندہ دیکھا ۔ ہم نے شہباز شریف اور ملک عبدالقیوم کو انصاف کی دھجیاں بکھیرتے قومی المیہ بنتے دیکھا ۔ حدیبیہ کیس کا جب فیصلہ لکھا گیا تو اس پہ بات کرنے پہ پابندی لگانے والے آج خود بھی ایسے ہی اک فیصلے سے سر خرو ہوئے  ہیں۔

(جاری ہے)

ہم جس عدل کے امین اور وارث ہیں اس میں تو خلیفہ کے احترام میں کھڑا ہونے والا قاضی سبکدوش ہو جاتا تھا ۔

ہمیں ممتاز کرنے والے تو وہ فیصلے ہیں جن میں خلیفہ تو کبھی اس کا بیٹا مجرم ٹھہرایا گیا ۔ کبھی کسی بدو نے گلے میں کپڑا ڈالا تو کبھی کسی نے مال غنیمت کی تقسیم پہ سوال اٹھائے ۔ جب انصاف کا بول بالا تھا تو ہم محفوظ تھے ۔ اب اگر ہم آج غیر محفوظ ہیں تو اس کی وجہ ہماری عدالتوں کی وہ کارکردگی ہے جس نے 128 ممالک میں ہمیں 120 نمبر پر سرفراز کیا ہے ۔

کبھی انگریزی جرائد نے ہماری عدلیہ کو کرپٹ اور کبھی " بچز آف دی رچز  لکھا ہے
  ہمارے ملک میں سرینہ سے زرینہ اور سمیع اللہ سے کلیم اللہ کا کھیل سدا سے جاری رہا ہے اور ماشاء اللہ اب ہمارا قومی افتخار بن چکا ہے ۔ اگر میری باتیں ناگوار گزر رہی ہیں تو میرے ساتھ اسے بھی ضرور کٹہرے میں لائیے جو آپ کو دنیا میں 120 نمبر کے سنگھاسن پہ بٹھا کے نظر اتار رہا ہے ۔

اگر پھر بھی میرے جیسے عناصر کی بیخ کنی لازمی ہو تو مجھے سنئے گا ضرور کہ
چل ساتھ کہ حسرت دل مرحوم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
میرے ساتھ اس ضمیر کو بھی سولی ضرور چڑھائیے گا جو مجھے کمتری کا احساس دلاتے جینے نہیں دیتا ۔ کیونکہ جینے کے لئے اس کا مر جانا بہت ضروری ہے
اس شہر میں جینے کی ہے اب ایک ہی صورت
احساس  کے منصور کو سولی  پہ   چڑھا  دو
آپ کے نظام نے لاہور میں انارکلی کے بازاروں میں سموسوں کے ساتھ ملتی چٹنیوں کا تو از خود نوٹس لیا ہے لیکن آپ کی ناک کے نیچے اسلام آباد میں کچلے گئے شہری یا کوئٹہ کے چوراہے کا وہ کانسٹیبل ضرور در خور اعتناء رہا ہے جس میں کچھ امراء اور نشے میں دھت شرفاء ملوث تھے ۔

جس ملک میں صدر ۔ وزیر اعظم اور اب آپ کو بھی استثناء حاصل ہو وہاں انصاف کی امید کس سے رکھی جائے ۔ سانحہ ساہیوال ہو یا ماڈل ٹاؤن آپ کی پتھروں سے پر شکوہ عمارت کے سائے میں بیٹھی اشک بہاتی زین کی ماں کے ساتھ کراچی کے شاہ زیب کی بد قسمت بہن نے بھی آپ کی طرف دیکھا لیکن شاید آپ کی نظر میں یہ عوام سموسوں سے بھی کم اہمیت کی حامل تھی ۔ ویسے بھی اشرافیہ کے لئے تو سب جائز ہے کیونکہ وہ تو ہر روز اپنے عمل سے ظاہر کرتی ہے کہ
کب ،کوئی ،کیا  ہے اپنا  حرج میں نے
دیں دیا دنیا  میں ہے تج  میں  نے
میری دولت  کے  ہیں کرشمے  یہ
جرم کر کے کیا  ہے  جج  میں  نے
لوٹ کےتیرے انساں کواے رب
ہر  برس کر  لیا  ہے حج  میں  نے
بت سبھی   توڑ   کے  حرم میں   دیکھ
پھر  رچا  لی ہے  وہ ہی  دھج  میں نے
خود  کو  منوانے  کے   لئے   شاہد
قبلہ  رخ  بھی نکالا  کج  میں  نے
چرچل کو عدالتوں سے ملنے والے انصاف کے فیصلوں میں اپنی قوم کی بقا نظر آتی ہو یا ابھی حال میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل میں دھر لیا جانے والا پولیس افسر ہو معاشرے کی زندگی اور جسم میں حرارت اس عدل سے ہی ہے ورنہ معاشرہ بے حس اور مردہ ہو جایا کرتا ہے ۔

آپ ویسے تو مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ عزیر بلوچ اور راؤانوار کے خلاف کوئی گواہی دینے کو نہیں نکلتا کیونکہ اسے آپ پہ اعتماد نہیں ہے کہ آپ کوئی فیصلہ کر پائیں گے کہ جس میں اس کی زندگی اور آبرو کی گارنٹی ہو ۔ ہاں ویسے آپ کے نظام عدل میں شریفوں کی زندگی کی گارنٹی  مانگنے کی سکت ضرور  ہے ۔آج بھی قیدی پاؤں میں  بیڑیاں پہنے ملکی ہسپتالوں میں جان  سے جاتے ہیں لیکن آپ کی نظر کرم ہو تو قیدی پچاس روپے کے بیان حلفی پہ لندن کی سڑکوں پر ہشاش بشاش بھی نظر آتے ہیں ۔

صاحب کیا کہنے ۔ کسی کو آزادی کا پروانہ پھانسی چڑھ جانے کے بعد ملے اور کسی کو سر عام قتل پہ امان ہی امان حاصل ہو
خرد  کا  نام  جنوں  پڑ  گیا  ،جنوں   کا  خرد
جو  چاہے آپ  کا  حسن کرشمہ  ساز کرے
ترے  کرم  کا   سزا   وار  تو   نہیں  حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :