کورونا وائرس، عذاب یا وبا ؟ (آخری حصہ )

پیر 18 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

جیسا کہ ہم نے پچھلے کالم میں ذکر کیا کہ چین اور جرمنی کی کمپنیوں نے ویکسین بنا کر تجرباتی طور پر اس کا انسانوں پر استعمال شروع کر دیا ہے۔اس ضمن میں مختلف ممالک میں مختلف طریقہ ہائے علاج سے مدد لی جارہی ہے۔ کئی ممالک میں تین اینٹی وائرلanti-viral ادویات کے مرکب سے بھی اچھے نتائج حاصل کیے جارہے ہیں۔اس وقت تک کی تازہ ترین معلومات کے مطابق (تفصیلات کے لیے www.biorender.com/covid-vaccine-tracker کا مطالعہ کیجیے ) ، 102مختلف اقسام کی ویکسینز متعارف کروائی جا چکی ہیں جن میں سے 14 تجرباتی سطح پر انسانوں میں استعمال کروائی جا رہی ہیں اور 88 ابھی pre-clinicalسطح پر تجرباتی مراحل میں ہیں۔

اسی طرح دواؤں کو دیکھا جائے تو 185 مختلف ادویات یا ان کے مرکبات اس ضمن میں اب تک متعارف کروائے جا چکے ہیں جن میں سے 96 ابھی preclinical سطح پر تجربات کے مرحلے میں ہیں جبکہ84 انسانوں کو تجرباتی سطح پر استعمال کروائے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)


 ادھر کراچی میں گزشتہ ماہ National Institute of Blood Diseasesکے سربراہ جناب ڈاکٹر طاہر شمسی نے حکومتِ پاکستان کوplasmaکے ذریعے کورونا وائرس کے علاج کی تجویز دی تھی۔

اس کے لیے کراچی میں کورونا وائرس سے صحتمند ہونے والے ایک مریض یحییٰ جعفری نے رضاکارانہ طور پراپنے خون کا عطیہ دیا تاکہ اس کے plasmaسے antibodiesبنا کر متاثرہ مریضوں کا علاج کیا جا سکے۔اطلاعات کے مطابق حکومتِ پاکستان کی منظوری سے پشاور کے ہسپتال HMC میں بھی اس سے مریضوں کا علاج تجرباتی طور پر شروع کردیاگیا ہے اور کراچی میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں بھی کورونا کے مریضوں کا تجرباتی طور پر پلازمہ سے علاج شروع کیا گیا ہے۔

یہ بات یقیناًخوش آئند ہے کہ تازہ ترین معلومات کے مطابق کراچی میں ایک 53 سالہ مریض اس طریقہ سے صحتیاب ہو چکا ہے اورڈاکٹر طاہر شمسی کے بقول اسے مکمل صحتیاب ہونے میں چودہ کی بجائے صرف سات دن کا وقت لگا۔ لیکن یہ سب کچھ ابھی تجرباتی سطح پر ہے اوران میں سے کوئی بھی کورونا وائرس کا حتمی علاج نہیں ہے۔ ہندوستان، امریکہ اور چین سمیت کچھ دیگر ممالک میں بھی اس طریقہ سے نوول کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔

اگر یہ طریقہ بڑے پیمانے پر مریضوں کی صحتیابی میں کام آتا ہے تو سائنسدانوں کے لیئے یقیناً یہ ایک اہم پیشرفت ہوگی اور یہ عام لوگوں میں اس وائرس کے خوف کو کم کرنے میں بھی مدد و معاون ثابت ہوگا۔
دوسری جانب alternative medicineمیں حکومتِپاکستان کے سب سے بڑے ادارے National Council for Homoeopathyکے سربراہ ڈاکٹر محمود الحق عباسی نے حکومتِپاکستان سے ایک خط کے ذریعے اپیل کی ہے کہ اس مشکل وقت میں ملک و قوم کی خدمت کے لیے ملک بھر میں موجود رجسٹرڈہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جائے۔

راقم الحروف سے موبائل پر بات کرتے ہوئے اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر اپنے مختلف ویڈیو پیغامات میں انھوں نے اس عزم کااظہار کیا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں نیشنل کونسل فار ہومیوپیتھی پورے ملک کے دیگر ڈاکٹرز کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ان کے مطابق چونکہ ہومیوپیتھی میں دوا کے بالمثل علامات کے ذریعے کسی بھی بیماری کا علاج کیا جاتا ہے ، اس لیے انھیں پورا یقین ہے کہ اس وبا کے علاج میں ہومیوپیتھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

چونکہ ہمارے ملک کی ایک غالب اکثریت روایتی طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ حکمت اور ہومیوپیتھک طریقہ علاج سے بھی استفادہ کرتی ہے جس کی ایک بڑ ی وجہ ایک طرف ہسپتالوں اور کلینکس کے ہوش ربا اخراجات تو دوسری طرف ان طریقہ ہائے علاج کا کم خرچ ہونابھی ہے ، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اگر سائنسی بنیادوں پر اس اہم موقع پر اس سے یا شعبہِحکمت میں موجود کسی دوا سے کچھ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے تو اس جانب ضرور توجہ کرے تاکہ لوگوں کو علاج کی کوئی قابلِ عمل اور کم خرچ صورت میسر آسکے۔

اس سلسلے میں اطلاعات کے مطابق ادارہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستانDRAPنے کورونا وائرس کے علاج کے لیےHealth and OTC pharmaceutical companies کو ہربل اور ہومیوپیتھک دوائی تیار کرنے کے لیے کلینکل ٹرائل کی اجازت دے دی ہے۔ 
یہ بات ہمارے قارئین کے لیے یقیناً دلچسپی کا باعث ہو گی کہ کسی بھی بیماری سے صحتیاب افراد کے پلازمہ سے علاج دراصل علاجِ بالمثل کا طریقہ ہے جو الٹرنیٹو و میڈیسن میں تقریباً دو صدیوں سے دنیا بھر میں ہومیوپیتھی کی صورت میں رائج ہے اورہومیوپیتھی کی تمام ادویات اسی طرح تیار کی جاتی ہیں۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ہومیوپیتھی کی سائنسی تصدیق کے برابر ہے اورسائنسدانوں کو چاہیے کہ ان ادویات کو بھی سائنس کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور اگر اسی طریقہ ِکار کو آگے بڑھاتے ہوئے ہومیوپیتھک کی کوئی یا کچھ ادویات کورونا وائرس سے بچاؤ یا اس کے علاج میں کام آتی ہیں تو یقیناً یہ ایک سستا ترین طریقہِعلاج ہوگا جو نہ صرف عام اور غریب انسان کی پہنچ میں ہوگا بلکہ جیسے ہم نے کہا کہ اس سے موجودہ خوف کی اس فضا کو بھی کم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملے گی جس نے کورونا وائرس کی صورت میں اس وقت ساری دنیا کو جکڑا ہوا ہے۔

اسی دوران عالمی ادارہِ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین 2021کے اختتام سے قبل بن پانا ناممکن ہے۔ادارے کے ترجمان کے مطابق نئی ویکسین کی آزمائش کے تین مرحلے ہوتے ہیں جس کے بعد اسے دو مزید مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اور ان تمام مراحل کو مکمل کرنے میں تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہے۔اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ شاید کورونا وائرس کا مکمل خاتمہ ساری دنیا سے ہمیشہ کے لیے ممکن نہ ہو سکے اور یہ ایڈز کی طرح ایک مستقل وبا بن سکتا ہے، اس لیے ہمیں اس کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہوگااور آگہی اور احتیاطی تدابیرکے ذریعے ہی اس کی ہلاکت خیزی کا مقابلہ کرنا ہوگااور دوا کی دستیابی سے قبل حالات کا معمول پر آنا ناممکن نظر آتا ہے۔

کیا کورونا وائرس کے لیے کوئی حتمی ویکسین یا دوا تیار ہو پائے گی ؟ اور اگر ہو گی تو اندازاً اس کو کتنا عرصہ درکار ہوگا ؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات فی الوقت کسی کے پاس نہیں ہیں۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ انسان کو اس وبا کے ڈر اور خوف میں کب تک رہنا پڑے گا اور کب تک اس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا پڑے گا کیونکہ بہرحال ہمیشہ کے لیے نہ تو لاک ڈاؤن ممکن ہے اور نہ ہی انسانی فطرت اسے کسی ایک جگہ ٹک کے بیٹھنے دیتی ہے اور اس پر مستزاد مفلسی کا خوف ہے جو انسان کو ہر خطرے سے بے نیاز کر کے باہر نکلنے اور روزگار کے حصول کی کوشش پر مجبور کرتا ہے۔

 اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وائرس سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ اس کے علاج کی ہر ممکن تدبیر اختیارکی جائے جس میں روایتی طریقہِعلاج ، الٹرنیٹوو میڈیسن یا ہومیوپیتھی ، حکمت ، اور قوتِمدافعت بڑھانے کے لیے مختلف چیزوں کا استعمال سب شامل ہیں۔لیکن یہ بات یاد رہے ، دوا چاہے کوئی بھی ہو، کسی بھی طریقہِ علاج سے تعلق رکھتی ہو ، اس شعبے کے مستند معالج کے مشورے کے بغیر اس کا ازخود استعمال ہرگز ہرگزنہیں کرنا چاہیے۔کیوں کہ مستند معالج کے مشورے کے بغیر کسی بھی دوا کا استعمال ناقابلِتلافی نقصان کا باعث بن سکتاہے۔ (ختم شد) 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :