لہولہان کشمیرمیں الیکشن بائیکاٹ اور مستقبل کا لائحہ عمل

پیر 22 اپریل 2019

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

 بھارت میں بھی اہل پاک کی طرح کشمیریوں کے درد کو معصوص کر نے والے محب الوطن انسان دوست افراد رہتے ہیں اور عالمی سطح پراب اس حقیقت کو تسلیم کیا جارہا ہے کہ مسلہ کشمیر حل کئے بغیر بر صغیر کے امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔حالات کی ستم ظریفی کہ بھارتیکم ظرف پالیسی ساز حقائق کے ادراک کے بر عکس ہٹ دھرمی اور ظلم و جبرسے اس خطے کوغربت، افلاص،جنگ و جدل، معاشی،سماجی،سیاسی،انسانی بد حالی میں دھکیل رہے ہیں۔

مسلہ کشمیر جوں کا توں رہنے سے آٹے میں نمک کے برابر مستفید ہو رہے ہیں باقی کشمیری من حیث القوم عذاب میں مبتلا ء اور ہند پاک کے کروڈوں افراد بنیادی ضروریات سے محروم ۔ کشمیر کو اپنی انا کا مسلہ بنا نے والے ہند پاک کا حکمران طبقہ کروڈوں انسانوں کے درد کو معصوص کریں۔

(جاری ہے)

مسلہ کشمیر حل کر نے کی ضمانت عالمی ادارے نے دی ہے، کشمیر پر پاس کی گئی قراردادوں کے مطابق اندرونی سطح پر معاملات چلانے کیلئے الیکشن کو رائے شماری کا نعمل بدل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، بھارتی مقبوضہ کشمیر میں الیکشن سے پہلے امیدوار اسی منطق کو بار بار دھرارہے ہیں مگر اگر کبھی کشمیری اپنے روز مرہ مسائل کے حل کیلئے اس منطق کو مدنظر رکھکر ووٹ ڈالتے ہیں تو چالاک بھارتی سورما دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں کہ کشمیریوں نے حریت بائیکاٹ کال کو ردکر کے بھارت کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔

مسائل و مصائب کے گرداب میں اپنابوجھ ہلکا کر نے کسی اچھی امید پر کشمیری ووٹ ڈالے تو بھارتی سورما کشمیریوں کی اس سادگی کو مکاری سے دنیا کو گمراہ کر نے کا پروپگنڈہ بنا رہے ہیں۔ کشمیری با ئیکاٹ کرے تو بھارتی چالاک پالیسی ساز کشمیریوں کو بدنام کر رہے ہیں کہ کشمیری جمہوری اقدار کے خلاف ہیں۔ لہذا دنیا کو گمراہی سے بچا نے کیلئے مستقبل میں قائدین کو ایک لائحہ عمل تر تیب دینا چا ہئے ،کہ دنیا کو اس حقیقت کا ادراک ہو کہ تحریک آزادی کشمیر جمہوری حقوق کی پاسداری کیلئے ہے، تاکہ کشمیریوں کو انکا جمہوری حق دلایا جائے کشمیریوں کو اپنابنیادی حق کو حاصل کر نے کیلئے بین الاقوامی ادارے نے رائے شماری کیلئے قراد دادیں پاس کی ہیں ،ان قراردادوں پر عمل کرانے کیلئے کشمیریوں کی حق پر مبنی تحریک کو دبانے کیلئے کشمیر خود کشمیریوں کیلئے جہنم بنا دیا گیا ہے، کشمیریوں کو ایک دوسرے سے خونی لکیر نے الگ کیا ہے۔

میری رائے میں رائے شماری کی قرار داد پاکستان کے خلاف سٹے آردڈر ہے اسکے باوجود پاکستان قرار داد پر عملداری کیلئے سیاسی و سفارتی مددگار ہے اور بھارت مدعی ہو نے کے با وجود رکاوٹ ،اور اس بھارتی ہٹ دھرمی سے نہ صرف کشمیری مسلم و غیر مسلم بلکہ ہند پاک میں بسنے والے ضروریات زندگی سے محروم کروڈوں زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں،جمہور کے نام پر قائم بھارت جمہوری اقدار پامال کر رہا ہے۔

اور الیکشن میں بائیکاٹ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کشمیری انتہاء پسند ہیں جن کو جمہور پر بالکل اعتماد نہیں، بلکہ بائیکاٹ بھی ایک جمہوری احتجاج ہے۔
ایک دوسرے سے اختلاف کی گنجائش ہو سکتی ہے مگر آپسی سیاسی، سماجی، مذہبی، مسلکی، علاقائی، نظریاتی، ۔۔اختلاف سے کشمیریوں کے مشترکہ دشمن سفاک و مکار ظالم کو کو ئی فائدہ نہیں ملنا چا ہئے، کشمیر کے ہر گھر نے ستم دیکھا، کشمیری مسلمان، غیر مسلم،لادین بھارت کی ہٹ دحرم پالیسی کے شکار بنے۔

یہ تحریک آزادی کسی کی جاگیر نہیں ہے، سب کشمیریوں کی تحریک ہے، اس تحریک کے روح روان ہر سیکشن سے وابستہ ایماندار مخلص مصروف عمل ہمارے غرور، ہمارے شہداء، اپاہج، گمنام، بینائی و جاب سے محروم، گمنام قبروں میں دفن، گرفتار شدگان اور مہاجرین ہیں۔لہذا کشمیر کو چراہ گاہ سمجھنے والوں کی بنیاد پر عظیم تحریک سے ناطہ نہیں توڈا جاسکتا۔ ہمیں اپنے لوگوں کو سمجھانا ہے کہ ہم ایک ہی مٹی کے باسی ہیں ہماری قدریں مشترکہ ہیں، ہم ایک دوسرے کے درد کو سمجھیں۔

کنن پوش پورہ میں اجتمائی عصمت دری کے شکار ہماری بہنیں ہیں، بینائی سے محروم معصوم ہمارے اپنے ہی بچے ہیں،ظلم و جبر کی تمام حدیں بھارت نے پار کی، اب کشمیریوں کو انکی اپنی شاہراہیں استعمال کر نے کیلئے اجنبی ناجائز قابض بھارت سے اجازت نامہ لینا ہے،جس وجہ سے کئی مریض سڑکوں پر تڑپ تڑپ کے جان دے رہے ہیں،کشمیریوں کے خون کا کئی بھارتی سیاست دان سیاسی ایندھن بنارہے ہیں، ووٹ کے بدلے کشمیر میں پلاٹ دینے کی پیشکش کی جارہی ہے، جیسے کشمیر انکے باپ کی جاگیر ہے۔

لہذا سیاسی و دوسرے آپسی اختلافات کا حل ہم اس گرداب سے نکل کر ڈھونڈ سکتے ہیں فلحال مشترکہ دشمن کے خلاف محاذ کا حصہ بنیں،مشترکہ لیڈشپ کی کال پر الیکشن کا با ئیکاٹ کریں۔ بھارت نے اس عظیم جمہوری تحریک کو دبانے کیلئے ظلم و جبر کے ہر حربے آزمارہا ہے۔ لاکھوں مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔مسلمانوں کے گہرے زخموں کے ساتھ ساتھ ہماری پنڈت برادی کے درد کو بھی معصوص کر نا ہے جنکو ایک سو چے سمجھے منصوبے کے تحت صرف اور صرف عوامی تحریک آزادی کو فرقہ ورانہ رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کر نے کیلئے استعمال کیا گیا۔

اسی طرح امریکی صدر کے دورے کے دوران تحریک آزادی کشمیرکو بدنام کر نے کیلئے چھٹی پورہ میں سکھوں کو قربانی کا بکرا بنا یا گیا، جموں میں ہندو انتہاء پسندوں کو مسلح کر کے مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف استعمال کئا جارہا ہے۔ غرض کہ کشمیر سے وابستہ ہر گھر بھارت کی ہٹ دھرم اور ظالمانہ کشمیر پالیسی کا شکار ہے۔لہذاسب سے بڑی اہمیت اس با ت کی ہے کہ ظلم و جبر اور غلامی کے بھنور سے نکل کر کشمیری آزادی کی منزل کو کیسے حاصل کر سکیں اس لیے موجودہ عوامی تحریک میں ایسی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جو کشمیر سے مخلص، سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور اقوام عالم کے لئے قابل قبول ہو۔

اس سلسلے میں یورپی یونین کا کشمیر پر مثبت بیان امید کی ایک کرن ہے،جوموجودہ عدم تشدد کی تحریک، اورعسکری جدوجہد کے ثمرات کا ہی حاصل ہے۔ عدم تشدد عوامی تحریک آزادی کشمیر کو بھی بھارت طاقت کا استعمال کرنے سے باز نہ آیا۔ بھارتی نام نہاد سیکولر پالیسی دنیا کے سامنے واضح ہو چکی ہے۔ بھا رت مو جودہ الیکشن میں با ئیکاٹ کی کال کے سو فیصد کامیاب ہو نے کی صو رت میں مہذب اقوام کے سامنے رسوا ہو سکتا ہے ،مگر بھا رت ظلم و جبر اور اپنے مسلح کا رندوں کے ذریعے اس الیکشن میں بھی کچھ فیصد ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کیلئے قا ئل کر سکتا ہے،اور نادانوں نے چند تنظیموں اور امیدواروں سے امیدیں وابستہ رکھی ہیں۔

کالے قوانین کے تحت قوم اور حر یت قائدین کو جھکانے کیلئے ظلم و جبر کے حربوں کو آزمایا جا رہا ہے، لہٰذا قوم اورحریت لیڈر شپ کے جذبہ ایثار اور قربانیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے، مستقبل میں الیکشن کے حوالے سے ایک ہم آہنگ پالیسی ترتیب دینی چاہیے تا کہ عالم میں بھارت کے مکروفریب، پالیسی کے توڑ کے لیے اقوام متحدہ کے زیر سایہ مشروط طور الیکشن میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہو جائے۔

بھارت کے با ضمیر آزادی و انسان دوست افراد کو بھی چاہیے کہ اپنے پا لیسی ساز اداروں کو کشمیر یو ں کی ہرجمہوری شرائط کو منظور کرا نے کی تر غیب دیں کیونکہ اپنی مدد آپ کے تحت اور تجربات کی بنیا د پر عسکری قوت اب پہلے سے زیا دہ بھا رت کیلئے نقصان دہ ثا بت ہو سکتی ہے، اگر بھا رت کشمیر یوں کے جمہوری انداز جدجہد کو بھی نظر انداز کرتا رہا۔
 بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے،ہڑتالیں بھی تو آخر ایک جمہوری جدجہدہے۔

اس لیے بین القوامی ادارے کی سر پرستی میں مشروط طور الیکشن میں حصہ لینے کی مانگ سے کشمیری کاز کو فائدہ ہی ملے گا اور نام نہاد جمہور کے چمپین پوری طرح دنیا میں رسوا اور ذلیل ۔بصورت دیگرما ضی کی طرح بھا رت کو بھی آزادی کی تحریک کے خلاف یہ پروپگنڈہ کر نے کا مو قعہ فراہم ہو گا کہ حر یت لیڈر جمہو ری اقدارسے اس وجہ سے خا ئف ہیں کیونکہ کشمیر یوں کی اکثر یت بھا رت کے ساتھ رہنے کے حق میں ہیں،جس وجہ سے حر یت لیڈر الیکشن میں حصہ لینے سے گھبرا تے ہیں ۔

بھا رت کی چا لوں کے توڑ کیلئے قا ئد اعظم  کی فرا ست و دانش کے طریقہ کار پرموجودہ تناظر میں اگر عمل کیا جائے تو مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔کیونکہ جمہوری طرز عمل کو بھارت کے بر عکس بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ عالمی اپروچ،حالات واقعات اور فیصلے تحریک آزادی کو متا ثر بغیر نہیں رہ سکتے لہذا مقامی سیا ست و جد جہد کے طریقہ کار کا اقوام عالم کے لئے قابل قبول لائحہ عمل بھی ضروری ہے ، تاکہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ مجبو را اقوام عالم کو مداخلت کرنے کا مو قعہ فراہم کر کے اس تحریک کو منظقی انجام تک پہنچا یا جا ئے۔

اس سنجیدہ مسلے کو آزادی پسندافراد کی اکثر یت کے روز مرہ مسائل و ضروریات کے تنا ظر میں بھی پرکھنے کی ضرورت ہے۔ مسائل میں گھرے ہوئے بھارتی بر بریت او راپنو ں کے تغافل کے شکا اکثرمتا ثر کنبوں کو تسلسل سے بھارت نواز تحریک دشمنوں کے رحم کرم پر چھوڑنا بھی تو دانائی نہیں، آرپارصرف چند افراد کیلئے فنانشل مسائل کوئی ایشو نہیں ۔لہذاجذباتی نعرہ بازی یا آنکھیں بند کرکے لفظوں کی بے لذت جگالی کافی نہیں ہے،بلکہ وحدت و نظریا تی ہم آہنگی کی بنیاد پرقا ئد اعظم کی تقلید کر کے ایک درست لائحہ عمل اور حکمت عملی کے ذریعے بھارت کے ہر مکر و فریب کو ناکام بنایا جا سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :