قائد اعظم کے مضبوط پاکستان کی شہ رگ

ہفتہ 25 دسمبر 2021

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

علامہ اقبال کے روحانی فلسفے کی آبیاری کر تے قائد اعظم کی رہنمائی میں بر صغیر کے مسلما نوں نے خون اور دریا عبور کر کے پا کستا ن حا صل کیا ہے،قائد اعظم نہ صرف متحدہ بھارت کے مسلمانوں کے خیر خواہ تھے بلکہ کشمیریوں سے بھی مخلص تھے، تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظم نے کبھی اپنی انا سے سمجھوتہ کر کے کسی کا استقبال نہیں کیا ، وائسرائے قائد اعظم کے خود داری اور خود اعتمادی سے متاثر ہو ئے بنا نہیں رہ سکے، لیکن کشمیر سے قائد کی والہانہ محبت ،کشمیر ی قائد چودھری غلام عباس کے استقبال کیلئے اپنی بہن فاطمہ جناح سمیت ،بیماری کے باوجود کھڑا انتظار میں استقبال کیا۔

قائد کے کشمیر سے جذباتی محبت کی کئی داستانیں تاریخ میں گم ہو چکی ہیں، جیسے قائد کی 1926-28کے دورے کشمیر کی تفصیل نہیں ملتی، البتہ 1936کے کشمیرکے دورے کے دوران شیخ عبداللہ کی ایماء پر کشمیر کی عدالت میں بحثیت وکیل قائد نے صلاحتوں کا لوہا منوایا۔

(جاری ہے)

قائد نے اسی دورے میں مسلم کانفرنس کے صدرچو دھری عباس کی دعوت پر پتھر مسجد خطاب میں کشمیریوں کے جذبہ حریت کو خراج تحسین پیش کیا اوراپنے تعاون کا یقین دلایا، قائد کو شیخ عبداللہ کے کانگریس کی طرف جھکاؤ کی بنیاد پر کشمیر کے تاریک مستقبل کا ادراک تھا۔

اس وجہ سے انہوں نے شیخ عبداللہ اور چودھری عباس کو قریب لانے کی بہت کو شش کی، کیونکہ قائد جانتے تھے کہ الگ الگ بولی بولنے اور قائدین کے شیرازہ بکھرنے سے کشمیری مصائب و مسائل کے گرداب میں پھنس جائیں گے، اور اسی رسہ کشی کا خمیازہ کشمیری ابتک اٹھارہے ہیں، خصوصامقبوضہ کشمیر میں خصوصی حثیت کی منسوخی کے بعدمتحرک قائدین و حر یت پسند ظلم وجبر کے ہر حربے اور دھونس و دباؤ کے شکار ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں اسلامی تشخص اور کشمیری شناخت کو ختم کر نے کی سازشیں جاری ہیں،حر یت پسندوں کا قتل،گرفتاریاں ، جھوٹے کیسوں میں الجھا نا، چھاپے، میڈیا سمیت ہر سیکشن پر قدغن کشمیر دشمن ایجنڈے کا حصہ ہے۔ان حالات میں کشمیر سے مخلص افراد کی ذمہ داریاں وسیع ہیں۔تحریک آزادی کے وسیع تر مفاد کیلئے کھوئے مقام و وقار کو ازسر نو بحال کر نے کیلئے انقلابی اقدامات پر عمل کر نے کی اشد ضرورت ہے۔

اس حوالے سے بکھرے شیرازے کو سمیٹنا وقت کی اہم ضرورت ہے،جو آرزو برسوں سے قوم کے دلوں میں آباد ہے، تاکہ مثبت رحجانات سے تحریک آزادی کی آبیاری ہو اور اس مثبت انقلابی عمل کے اثرات سے نئی راہیں تلاش کر نے میں رکاوٹوں کو عبور کر نے کا موقعہ میسر ہو ، اور ایک دوسرے کے تعاون سے جبر و ظلم کے خلاف خاموشی کو زائل کر نے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہمیں ثابت کر نا ہے، کہ ذاتی انا ، تنظیمیں و ذاتی مفادات کے بر عکس قومی مفادات ہمیں عزیز ہیں ہم اس تلخ حقیقت پر غورکریں کہ خون اور آگ کے دریا عبور کر کے بھی ہم بٹے ہیں، بحثیت سیاسی تجزیہ کار میں جانتا ہوں کی تحریک پاکستان میں بھی قومی سطح پر کئی تنظیمیں بر سر پیکار تھی مگر بازی علامہ اقبال اورقائد اعظم نے جیت لی ہمیں اپنے اندر انصاف اور محاسبہ کیلئے اقدام اٹھانے چاہئیں کیاہم نے کبھی الگ الگ صلاحتوں سے تحریک آزادی کی آبیاری کر نے کا سوچا، کیا اصولوں کی آبیاری کی۔

تحریک میں چالاکی یا ذاتی اثر و رسوخ کی نہیں بلکہ تحریک کیلئے خدمات اور قربانیاں،کردار واقدار اور صلاحتوں کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
1944میں قائد اعظم اور چودھری غلام عباس کے درمیاں طویل اور بامعنی ملاقات میں قائد نے کشمیریوں کیلئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا، اس ملاقات کا زکر خیر غلام عباس نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔اسی اصولی موقف پر کاربند رہ کر پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد گار ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ مضبوط پاکستان آزادی کشمیر کی بنیاد پرخطے میں امن کی ضمانت ہے ۔

لہذاء معاشی ودیگر بحرانوں سے نکلنے اور عام لوگوں میں اعتماد بحال کرنے کے لیے ہر ادارے کے اعلیٰ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے لیے ابتداء اپنی تنخواہوں، مراعات و اخراجات کو محدود کر کے کرلیں ،عیش کوشی سے پرہیز کر لیں، وزراء کی فوج کوکم کرنااورچاہنے والوں کے نام مہنگے پلاٹ الاٹ کرانے کے برعکس ملک میں بے زمین ہاریوں کو زمین ملنا چاہئے۔

بیرونی ممالک سے اپنے اکاؤنٹ پاکستان منتقل کر کے پاکستان کو معاشی طور مضبوط بنائیں۔ اس طرح دوسرے سر ما یہ داروں اوراوورسیز کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب مل سکتی ہے۔ رشوت خوری کے خاتمے کے لیے پہلے اعلیٰ حضرات اپنے تمام اثاثہ جات کی تفصیل عوام کے سامنے رکھیں۔ اعلیٰ حضرات او ر میڈیاالله کے غضب اورغریب عوام کی آہوں کو مد نظر رکھ کر رقص و سرور کی محفلوں سے پرہیز کریں، تا کہ یہ تاثر زائل ہو کہ اسلامی عدل و انصاف سے یہ اس لیے خوفزدہ ہیں کہ ان کے تمام لوٹ کھسوٹ اور عیش کوشی کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔

عام محنت کش اور مڈل کلاس لوگوں کی تنخواہیں ایسی مقرر ہو، جن سے دو وقت کی روٹی پوری ہو ,کچھ منصف بھی رشوت لیکر عدل کی ڈنڈی کو ٹیڑھا کررہے ہیں اس عدم مساوات و نا انصافی کے خلاف جمہوری جنگ پاکستان کے لیے جنگ ہے۔اس سلسلے میں محب الوطن معاشی، تعلیمی،قانونی ماہرین کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئے۔ پاکستان کے لیے علماء بھی اپنے کردار، گفتار اور عملی زندگی سے بھر پور حصہ لیں۔

اسوئہ حسنہ ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے عدل و انصاف اسلا می مسا وات و سادگی کا عملی نمو نہ بن جا ئیں ۔ جس معاشرے میں کچھ لوگ ڈسٹ بِن سے روٹی تلاش کریں ، مخلص عالم دین میری محدود علم کی بنیا د پر فتویٰ صادر کر سکتے ہیں کہ مہنگی گاڑیوں اور محلوں کی شریعی طور ایسے غریب معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔ علماء،و دانشور اسلامی اقدار کے مطابق انسانی زندگی کی قدر و منزلت سے روشناس کرائیں اور غریبوں کے مسائل حل کرنے کی حکومت کو ترغیب دیں، جو موجودہ کرپشن سسٹم کے خاتمہ، یکساں تعلیم، زمینی اصلا حا ت،تنخواہوں و مراعات میں فرق کے خاتمے سادگی اور آزاد عدلیہ اسلام کے فلاحی نظام سے ہی ممکن ہے۔

موجودہ حکمران پارٹی کا منشور اور بنیاد ہی انصاف،برابری، غریب پر وری کے عملی اقدامات اسلامی عدل ہے۔ اس وجہ سے اب بھی مسائل و مصائب کے گرداب میں پھنسے غریب عوام موجودہ حکومت سے مثبت امیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔ مظلوموں کو سرداروں، وڈیروں، قبضہ گروپوں، سیاسی و مذہبی اجارہ داروں سے نجات دلانا بھی پاکستان کی خدمت ہے۔کیو نکہ یہ اپنے مسلح کارندوں کے بل بوتے پر نجی جیل خانوں میں غریبوں کو محدود کر کے اُن سے بیگار لے رہے ہیں۔

جو حکومت کی رٹ کو کھلے عام بڑے شہروں میں چلینج کر رہے ہیں لہذاء ایسے بدمعاشوں سے غریب عوام کو نجات دلانا اور پاکستان کے لیے سماجی و سیا سی جنگ میں مربوط لائحہ عمل اور حکمت عملی کی ضروت ہے۔ حکمران طبقہ منطقی دلا ئل۔دلچسپ بیا نات اور ولولہ انگیز تقریروں ، جو اصل واقعات کی حقیقتوں سے بہرہ اندوز نہ ہوں، کے بر عکس پا کستا ن کے بنیا دی مقا صد کو مد نظر رکھکر ایک عاد لا نہ اسلامی فلا حی ریا ست کے قیام کیلئے اپنی کو تا ہیوں کی اصلا ح کر لیں اپنے اختیا رات، وعدوں اور جمہو ریت کے با رے میں ان کے متعلق جو غلط فہمیاں پا ئی جا رہی ہے قوم کے سا منے وضاحت کر لیں۔

اسلئے کہ بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے اس مملکت خداد اد کا قیام ایک تحفہ خدا وندی ہے۔حکمران طبقہ علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے فکر و عمل کے عین مطابق کشمیر کی آزادی اور پاکستان کو ایک جدید اسلامی ،جمہوری اور فلاحی مملکت کے طور پر تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :