طالبان فوبیا ، مغرب اور بھاڑے کی مجبوری

ہفتہ 21 اگست 2021

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

چند سال پہلے مظفر آباد پریس کانفرنس میں اور تنظیم اسلامی کی جانب سے منعقد کشمیر سمینار میں،احقر نے اوریا جان صاحب کے 71 اور 17کے جواب میں تحریک آذادی کشمیر کو افغان سے مواذنہ کر نے سے پر ہیز کر نے کا کہا اسلئے کہ افغان میں حکمران تبدیل کر نے کیلئے اور کشمیر میں بھارت کی طویل جابرانہ ناجائز قبضے کے خلاف تحریک جاری ہے۔اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ روحانی جذبے سے سرشار عام بندوق سے لیس چند ہزار طالبان کا جدید سامان سے لیس امریکہ اور نیٹو کو شکست دیناکوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ تحفہ خداوندی ہے اور تمام مظلوم اقوام خصوصا کشمیریوں کیلئے خوشخبری کہ خاموشی کو توڈ کر جدجہد کے تسلسل کو پھر جاری رکھکر جدید سازو سامان سے لیس بھارت کو شکست دی جاسکتی ہے۔

اگر چہ کشمیریوں نے اس طویل تحریک آزادی میں خون اور دریا عبور کر کے بہادری ، صبر و استقامت اورقربانیوں کی سنہری تاریخ رقم کی ہے ۔

(جاری ہے)

تحریک آزادی سے وابستگی کی بنیاد پربحثیت پر امن آزادی پسند حالات کا گواہ اور شکار ہو نے کی بنیاد پر کشمیریوں کے جذبوں اور استقامت کو سلام پیش کر رہا ہوں جو بھارت کے تمام ظلم و جبر اور بر بریت اور لالچ کے با وجود جھکے اور نہ بکے،اسکے باوجو بھارت کے خلاف دنیا خاموش ہے، البتہ مفروضوں کی بنیاد پر طالبان اور پاکستان کے خلاف یک طرفہ جانبدار نا انصاف پالیسیوں پر دنیا کاربند ہے۔

البتہ بھارت کی طرف سے خصوصی حثیت ختم کر نے کے بعد بھارتی آلہ کاروں نے خوف کا ماحول قائم کیا اور قوم کو باور کرایا کہ کسی بھی قسم کی جدجہد کی پاداش میں بھارتی موجودہ ہندوتا حکمرانوں نے قتل عام کا منصوبہ بنایا ہے، اسلئے چند خیر خواہوں نے کشمیریوں کو خاموش احتجاج کی اپیل کی، مگر پھر بھی بھارت نے بر بریت کے تمام ریکارڈ توڈ دئے۔ قائدین اور ہزاروں حریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا، کم عمر بچوں کو بھی بخشا نہیں جارہا ہے، کئی گرفتار شدگان کے گھروالوں کو پتہ ہی نہیں انکے بچے زندہ ہیں یااگر گرفتار ہیں تو کہاں؟میڈیا اور پرامن احتجاج پر قدغن ہے، احتجاج کر نے والوں کو بلیک لسٹ کیا جارہا ہے، اور پاسپورٹ اجراء نہیں کیا جا رہا ہے، غیر کشمیریوں کو کشمیر میں بسایا جا رہا ہے،اس حوالے سے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر کشمیریوں کو بسانے میں اس حد تک کامیاب نہیں ہورہے ہیں مگر جموں کے کئی علاقوں میں غیر کشمیریوں بسایا جارہا ہے۔

غیر کشمیریوں کو کشمیر میں بسانا نہ صرف کشمیر ویلی بلکہ جموں کے ڈوگروں اور لداخ کے بودھوں کے خلاف بھی سازش ہے، چونکہ احقر نے لداخ میں بحثیت سول انجینئر خدمت کی ہے، مجھے معلوم ہے کہ لداخی کبھی غیروں کو اپنی سر زمیں میں بسانے کی اجازت نہیں دیں گے، یہی وجہ ہے کہ خصوصی حثیت ختم کر نے کے خلاف کشمیری من حیث لقوم سراپا احتجاج ہیں، بھارت کے خلاف ان جذبوں کو ایک عوامی تحریک میں تبدیل کر نے کیلئے سادہ لوح طالبان کی تحریک سے استفادہ لینے کی ضرورت ہے۔

ماضی کی طالبان دور میں احقر نے بحیثیت ہومن و تعلم رضاکارافغانستان کے دورے کئے، ان دوروں کی روداد کا کچھ ذکر ان ایام کے نوائے وقت اخبار میں کیا ہے، البتہ یہاں یہ حقیقت دھرانا چاہتا ہوں کہ طالبان آخرت پسند اور انسان دوست بھی ہیں، بس اسلام دشمنوں نے انکو بدنام کر نے کا بیڑا اٹھایا ہے اسمیں اسلام کے نام پر کچھ دشمنوں کے آلہ کار بھی شامل ہیں۔

کابل میں احقر نے جب طالبان کے اکابرین سے ایک مخصوص فرْقے کے مسائل کی جانب توجہ مرکوز کرائی ان اللہ کے بر گزیدہ بندوں نے شریعی اور اخلاقی تقاضوں کے بنیاد پر میری تجاویز پر نہ صرف سنجیدگی سے غور کیا بلکہ عمل بھی کیا۔کئی مغربی صحافی اور رپورٹر بھی طالبان کی انسان دوستی سے متاثر ہو ئے، ایک خاتون صحافی نے انکے نیک بر تاؤ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، مگر یہ مثبت پہلو اجاگر کر کرنے کی مغربی اور انکے ماتحت پاک میڈیا کو اجازت نہیں ہے۔

طالبان کے زیر اثر علاقوں اورپاک وطن میں اقلیتوں ، عورتوں اور سماج کے نچلے طبقوں کے حقوق محفوظ ہیں مگر اس پر پاک میڈیا خاموش ہے، بس انظار میں ہے کب طالبان یا پاک وطن میں کو نی ایسا سانحہ پیش آئے تاکہ انکو اپنے آقاؤں کو خوش کر نے اور ڈالر حلال کر نے کا موقعہ ملے۔
جان کی امان ہو، بحثیت غیر جانبدار تجزیہ نگار میری رائے میں اسلام کے نام پر قائم پاکستان میں مغرب زدہ، لبرل اسلام دشمن میڈیا سمیت تمام سیکشن اور افراد کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے، چونکہ میڈیا کا رول کلیدی ہے، قوم پر اپنے نقوش چھوڈتا ہے، اسلئے میڈیا کی ذمہ داریاں وسیع ہیں کہ وہ ملک کو اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ، مگر حالات کی ستم ظریفی ڈالروں کی لالچ میں مغرب زدہ میڈیا ملک میں اخلاقی اور روحانی اقدارکو پامال کرنے میں مصروف ہے، یہ اسلام اور اخلاقی روایات سے پاک قوم کی جذباتی وابستگی ہے کہ ملک کی اکثر یت نے اسلام کا سکہ اپنے اوپر رائج کیا ہے۔

پاک وطن کا سب سے بڑا مسلہ کشمیر ہے، اس حوالے سے پی ٹی وی کچھ حد تک اپنی ذمہ داریاں نبھارہا ہے مگر احقر نے اپنے مضامین، ٹی وی مباحثوں میں میڈیا کو کشمیر کی افادیت کی طرف کئی بار متوجہ کرایامگر،غیروں کی ڈکٹیشن کی بناء پر،کشمیر میں ظلم و بر بریت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔دنیا میں شام سمیت کئی ممالک میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام بھی بے حس پاک میڈیا کو بیدار نہیں کر سکا ،البتہ مغرب میں چند افراد کا مرنا انکی بریکنک نیور بن جا تی ہے۔

موجودہ جیو پالیٹکس میں جب دنیا میں دو تہذیبوں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے، افغان میں چند ہزار طالبان نے جب جدید ہتھیاروں سے لیس امریکہ و نیٹوکو شکست دی، قوم کے مورال کو بلند کرنے اور ناجائز قبضے کے خلاف مصروف عمل کشمیریوں کی حوصلہ افزائی کر تے،پاک میڈیا بھارت سمیت دیگر اسلام دشمن میڈیا کی تقلید کرکے طالبان کے نام پر اصل میں اسلام اور شریعی قوانین کے خلاف گناہ کبیرہ میں برابر کے شریک ہیں ۔

منفی خبروں کو طالبان کی نصرت سے ایمانی جذبوں میں ولولہ پیدا کر نے سے روکنے اور پاکستان کو بدنام کر نے کیلئے بار بار دھرایا جا رہا ہے۔اور صرف ایک منفی پہلو کو دکھایا جارہا ہے، پاکستان میں اقلیتوں، انسانی اور خواتین کے حقوق بالکل محفوظ ہیں، اگر خدا نخواستہ کبھی کوئی ناخوشگوار سانحہ پیش بھی آتا ہے تو مجرموں کوعوام اور گورنمنٹ کبھی معاف نہیں کر تی بلکہ مظلوموں کو انکا بنیادی حق ملتا ہے، جو اچھی بات ہے اور اسلام میں اقلیتوں اور عورتوں سمیت سماج کے تمام پسماندہ طبقوں کے حقوق پامال ہو نے کی کو ئی گنجا ئش نہیں۔

اسکے برعکس سیکولر ازم کی بنیاد پر قائم بھارت کا میڈیا لگاتار کشمیر اور ملک میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے جان و مال کی تباہی اور دیگر انسانی حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ نہیں کر تے بلکہ کشمیر میں پر امن جمہوری تحریک آزادی اور اسلام کے آفاقی انسانی حقوق کی پاسداری قوانین کے خلاف سازشوں میں آگے آگے ہیں۔اب تو بھارتی میڈیا ،چند بھارتی نا،م نہاد ہندو سادھو اور ہندوتا لیڈر اسلام اور پیغمبروں کے خلاف بکواس کو اپنے پروگراموں میں تشریح کا موقعہ فراہم کر رہے ہیں، طالبان کے خلاف بھارت میں میڈیا ٹرائل جاری ہے ،آزر بائیجان اور آرمینا کی جنگ میں بھارتی میڈیا نے منفی رول نبھایا، اسکے برعکس آذربائیجان کی فتح پاک میڈیا کیلئے کو ئی خبر نہیں بلکہ اسلام دشمنوں کی طرح موجودہ حالات میں بھی طالبان کی کسی بھی معمولی غلطی پکڑنے کی تاک میں بیٹھے ہیں۔

اگر طالبان کی طرح پر امن طریقے سے کسی اسلام بیزار قوت نے فتح حاصل کی ہو تی، پاک میڈیا میں انکے بلے بلے ہو تے۔ذاتی طور ماضی میں طالبان دور میں بحثیت ہومن و اقراہ انچارج افغان دورے میں انسانی حقوق محفوظ دیکھے، امن و امان تھا، البتہ اسلامی قوانین کے تحت قوانین پر عمل کیا جارہا تھا،جو اسلام دشمن سمیت پاک میڈیا کوہضم نہیں ہوتا۔ان نادانوں کو یہ سمجھنا چاہئے، جس تلخ حقیقت سے پاک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی ایک سمینار میں آگاہ کیا کہ کشمیریوں نے بھارت سے تمام مادی اقدار کو ٹھکرا کر مصائب و مسائل اور موت کو صرف اور صرف اسلام کی سر بلندی کیلئے گلے لگایا، اسلئے پاکستان میں اسلام کا سکہ رائج ہو اور ان تمام سیکشنوں کو لگام دی جا ئے جو اسلامی واخلاقی اقدار کو پامال کر رہے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :